اسلام آباد اور راولپنڈی میں افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کیخلاف کریک ڈاؤن، 60 گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
غیرقانونی غیرملکیوں بالخصوص افغان باشندوں کی ملک بدری کے پلان کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا۔
افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو وطن واپس بھیجنے کے لئے تحویل میں لینے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور اسلام آباد اور راولپنڈی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائیاں کی گئیں جن کے نتیجے میں 60 سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو اب افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
پی او آر کارڈ ہولڈر افغان شہریوں کو 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی مہلت دی گئی ہے۔
شہر اقتدار میں سیٹیزن کارڈ رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں ترنول، بھارہ کہو، غوری ٹاؤن اور میرآبادی میں کی گئیں جہاں 22 افغان باشندوں کو تحویل میں لیا گیا جبکہ راولپنڈی کی فوجی کالونی اور ملحقہ علاقوں سے 38 افراد کو گرفتار کیا گیا جنہیں پرانا حاجی کیمپ منتقل کر دیا گیا اور وہاں سے رجسٹریشن کے بعد انہیں لنڈی کوتل کیمپ لے جایا جائے گا۔
فارن ایکٹ کے تحت مختلف جیلوں میں بند افغان باشندوں کو بھی آج لنڈی کوتل پہنچانے کا پلان ہے۔
تمام افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو لنڈی کوتل کیمپ میں بائیومیٹرک کے بعد وطن واپس بھیجا جائے گا جبکہ سب سے زیادہ افغان باشندے خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز
پڑھیں:
جرمنی؛ گستاخِ اسلام کو چاقو مارنے کے الزام میں افغان نژاد شخص کو عمر قید
جرمنی کی ایک عدالت نے افغان شہری کو اسلام مخالف ریلی میں چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مئی 2024 میں ہونے والے اس واقعے میں ایک پولیس افسر ہلاک جب کہ پانچ شہری شدید زخمی ہوگئے تھے۔
یہ حملہ مغربی شہر مانہائیم میں اسلام مخالف تنظیم پیکس یورپا کے ایک احتجاجی مظاہرے میں کیا گیا تھا جس میں مقرر نے مبینہ طور پر مذہبِ اسلام کی گستاخی کی تھی۔
سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش جس پر اس نے پولیس پر بھی چاقو کے وار کیے تھے۔
ملزم کی شناخت صرف سلیمان اے کے نام سے ظاہر کی گئی ہے جس کے پاس سے شکار کے لیے استعمال ہونے والا ایک بڑا چاقو برآمد ہوا تھا۔
اس حملے کے دوران ملزم بھی شدید زخمی ہوگیا تھا جو کئی روز تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہا اور جون 2024 میں عدالتی تحویل میں منتقل کر دیا گیا۔
استغاثہ کے مطابق سلیمان اے کے شدت پسند تنظیم داعش سے نظریاتی روابط تھے، تاہم اسے دہشت گردی کے بجائے قتل اور اقدامِ قتل کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔