ٹیلی گراف کے بقول ایک اعلی سطحی ایرانی فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملے کی صورت میں چاگوس جزیرہ نما میں ڈیاگو گارشیا فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی امور کے ماہر علی رضا تقوی نیا نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا: مجلے ٹیلی گراف کا دعویٰ ہے کہ ایک ایرانی فوجی عہدیدار نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر کسی قسم کی فوجی جارحیت کی صورت میں چاگوس جزیرہ نما میں ڈیاگو گارشیا فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی اس بیان کی شدید مذمت کی۔ اگر اس ایرانی اہلکار کا بیان درست ہے تو چند نکات قابل توجہ ہیں:
1)۔ جزیرہ ڈیاگو گارسیا، جسے امریکہ نے 1966ء میں برطانیہ سے لیز پر لیا تھا، ایرانی سرزمین سے 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ اس جزیرے کو جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کی دھمکی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
2)۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ایران ڈیاگو گارشیا جزیرے کو ممکنہ جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کے لیے کس قسم کے ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے اس اڈے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر سپاہ پاسداران خرمشہر 4 جیسے لانگ رینج میزائلوں کے ذریعے اور ایران کی فضائیہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں سے لیس Su-24 لڑاکا بمبار طیاروں کے ذریعے یہ کاروائی انجام دینے پر قادر ہیں۔
 
3)۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس نے اس رینج والے ہتھیار حاصل کر لیے ہیں، بذات خود اس بات کا گواہ ہے کہ پورا یورپی براعظم ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی زد میں آ سکتا ہے اور یوں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔
4)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈہ بحر ہند، خلیج فارس اور بحیرہ احمر میں امریکی بحری کارروائیوں کے لیے اہم رسد اور معاونت کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس اڈے کی سرگرمیوں میں ممکنہ رکاوٹ مغربی ایشیا خطے میں تمام امریکی بحری اڈوں اور بحری بیڑوں کی فعالیت کو شدید طور پر متاثر کرے گی۔
5)۔ کویت کی آزادی کے لیے جنگ اور افغانستان اور عراق کی جنگوں جیسی گذشتہ چند دہائیوں کے دوران انجام پانے والی امریکی جنگوں میں ڈیاگو گارشیا جزیرہ بھرپور انداز میں امریکہ کو آپریشنل مدد فراہم کرتا آیا ہے اور اس کام میں اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم، ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی طاقت کے پیش نظر، اگر ٹرمپ نے ایران کے خلاف کسی فوجی مہم جوئی کا مظاہرہ کیا تو چاگوس میں امریکی فوجی اڈے اور اس کے کئی ہزار فوجیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
 
6)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈے کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف فوجی آپریشنز میں پشت پناہی اور رسد میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹریٹجک بمبار طیاروں جیسے  B52، B1، اور B2 کی تعیناتی کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ یہ بمبار طیارے لانگ رینج تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کے پیش نظر وہ ایک ہی چکر میں طویل فاصلے پر موجود مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد اپنے اڈے پر واپس جا سکتے ہیں۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی کمانڈ عام طور پر اپنے اسٹریٹجک بمبار طیاروں کو دشمن کی پہنچ سے دور اڈوں پر تعینات کرتی ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن اگر ایرانی فوجی عہدیدار کی طرف سے حالیہ دھمکی عملی جامہ پہنتی ہے تو امریکہ کی جانب سے اسٹریٹیجک فضائی بمباری کی کامیابی اور تسلسل مشکلات کا شکار ہو جائے گی جس کے نتیجے میں امریکی حکام تہران کے مقابلے میں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران کو نشانہ ایران کی ایران کے فاصلے تک فوجی اڈے کی فوجی کے لیے

پڑھیں:

امریکا نے ایرانی ایل پی جی کمپنی اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی

ایرانی جوہری پروگرام پر جاری بات چیت کے درمیان امریکا نے ایران کے مائع پیٹرولیم گیس یعنی ایل پی جی کے ادارے اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے ایرانی مائع پیٹرولیم گیس میگنیٹ سید اسد اللہ امام جمعہ اور ان کے کارپوریٹ نیٹ ورک کو نشانہ بناتے ہوئے نئی پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔

Targeted in the new measure was "Iranian national and liquified petroleum gas (LPG) magnate Seyed Asadoollah Emamjomeh and his corporate network, which is collectively responsible for shipping hundreds of millions of dollars’ worth of Iranian LPG and crude oil to foreign…

— Iran International English (@IranIntl_En) April 22, 2025

امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ امام جمعہ کا نیٹ ورک سینکڑوں ملین ڈالر مالیت کی ایرانی ایل پی جی اور خام تیل بیرونی منڈیوں میں بھیجنے کا ذمہ دار ہے، جبکہ دونوں مصنوعات ایران کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

’جو ایران کے جوہری اور جدید روایتی ہتھیاروں کے پروگراموں سمیت اس کے علاقائی پروکسی گروپس بشمول حزب اللہ، یمن کے حوثی اور فلسطینی حماس گروپ کو فنڈ دینے میں مدد کرتی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان

اپنے ایک بیان میں امریکی سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا کہنا تھا کہ امام جمعہ اور اس کے نیٹ ورک نے امریکی پابندیوں سے بچنے اور ایران کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے امریکا سمیت ایل پی جی کی ہزاروں کھیپیں برآمد کرنے کی کوشش کی۔

ایران اور امریکا نے گزشتہ ہفتے کے روز ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک کی تیاری کا آغاز کرنے پر اتفاق کیاتھا، جسے ایک امریکی اہلکار نے ’بہت اچھی پیش رفت‘ قرار دیا تھا، تاہم مذکورہ مذاکرات کے پس منظر میں یہ حالیہ پابندیاں بظاہر ایران پر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کا پیش خیمہ نظر آتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسکاٹ بیسنٹ امریکا ایران ایل پی جی سید اسد اللہ امام جمعہ سیکریٹری خزانہ کارپوریٹ نیٹ ورک مائع پیٹرولیم گیس محکمہ خزانہ

متعلقہ مضامین

  • غزہ، مزاحمت کاروں کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
  • افریقی ملک بینن میں القاعدہ جنگجوؤں کا حملہ؛ 54 فوجی ہلاک
  • جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
  • یمن، صعدہ و صنعا امریکی دہشتگردی کی زد میں
  • کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی
  • امریکا نے ایرانی ایل پی جی کمپنی اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی
  • پہلگام حملہ، کشیدگی بڑھ گئی، مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
  • پہلگام حملہ، مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
  • دھمکی نہیں دلیل
  • امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط