ڈیاگو گارشیا جزیرے پر جوابی حملے کی دھمکی کا مطلب کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
ٹیلی گراف کے بقول ایک اعلی سطحی ایرانی فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملے کی صورت میں چاگوس جزیرہ نما میں ڈیاگو گارشیا فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی امور کے ماہر علی رضا تقوی نیا نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا: مجلے ٹیلی گراف کا دعویٰ ہے کہ ایک ایرانی فوجی عہدیدار نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر کسی قسم کی فوجی جارحیت کی صورت میں چاگوس جزیرہ نما میں ڈیاگو گارشیا فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی اس بیان کی شدید مذمت کی۔ اگر اس ایرانی اہلکار کا بیان درست ہے تو چند نکات قابل توجہ ہیں:
1)۔ جزیرہ ڈیاگو گارسیا، جسے امریکہ نے 1966ء میں برطانیہ سے لیز پر لیا تھا، ایرانی سرزمین سے 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ اس جزیرے کو جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کی دھمکی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
2)۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ایران ڈیاگو گارشیا جزیرے کو ممکنہ جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کے لیے کس قسم کے ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے اس اڈے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر سپاہ پاسداران خرمشہر 4 جیسے لانگ رینج میزائلوں کے ذریعے اور ایران کی فضائیہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں سے لیس Su-24 لڑاکا بمبار طیاروں کے ذریعے یہ کاروائی انجام دینے پر قادر ہیں۔
3)۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس نے اس رینج والے ہتھیار حاصل کر لیے ہیں، بذات خود اس بات کا گواہ ہے کہ پورا یورپی براعظم ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی زد میں آ سکتا ہے اور یوں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔
4)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈہ بحر ہند، خلیج فارس اور بحیرہ احمر میں امریکی بحری کارروائیوں کے لیے اہم رسد اور معاونت کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس اڈے کی سرگرمیوں میں ممکنہ رکاوٹ مغربی ایشیا خطے میں تمام امریکی بحری اڈوں اور بحری بیڑوں کی فعالیت کو شدید طور پر متاثر کرے گی۔
5)۔ کویت کی آزادی کے لیے جنگ اور افغانستان اور عراق کی جنگوں جیسی گذشتہ چند دہائیوں کے دوران انجام پانے والی امریکی جنگوں میں ڈیاگو گارشیا جزیرہ بھرپور انداز میں امریکہ کو آپریشنل مدد فراہم کرتا آیا ہے اور اس کام میں اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم، ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی طاقت کے پیش نظر، اگر ٹرمپ نے ایران کے خلاف کسی فوجی مہم جوئی کا مظاہرہ کیا تو چاگوس میں امریکی فوجی اڈے اور اس کے کئی ہزار فوجیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
6)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈے کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف فوجی آپریشنز میں پشت پناہی اور رسد میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹریٹجک بمبار طیاروں جیسے B52، B1، اور B2 کی تعیناتی کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ یہ بمبار طیارے لانگ رینج تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کے پیش نظر وہ ایک ہی چکر میں طویل فاصلے پر موجود مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد اپنے اڈے پر واپس جا سکتے ہیں۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی کمانڈ عام طور پر اپنے اسٹریٹجک بمبار طیاروں کو دشمن کی پہنچ سے دور اڈوں پر تعینات کرتی ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن اگر ایرانی فوجی عہدیدار کی طرف سے حالیہ دھمکی عملی جامہ پہنتی ہے تو امریکہ کی جانب سے اسٹریٹیجک فضائی بمباری کی کامیابی اور تسلسل مشکلات کا شکار ہو جائے گی جس کے نتیجے میں امریکی حکام تہران کے مقابلے میں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران کو نشانہ ایران کی ایران کے فاصلے تک فوجی اڈے کی فوجی کے لیے
پڑھیں:
امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
ایران نے اپنے شہریوں سمیت 11 دیگر ممالک کے پر امریکا میں داخلہ بند ہونے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کا فیصلہ نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 12 ممالک پر سفری پابندی عائد کردی، کونسے ممالک شامل؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکا آنے کی پابندی عائد کردی گئی۔ ان کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے ہے۔
بیرون ملک ایرانیوں کے امور کے لیے وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل علی رضا ہاشمی راجہ نے اس اقدام کو، جو 9 جون سے نافذ العمل ہوگا، امریکی پالیسی سازوں میں بالادستی اور نسل پرستانہ ذہنیت کے غلبے کی واضح علامت قرار دیا۔
انہوں نے وزارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ امریکی فیصلہ سازوں کی ایرانی اور مسلمان عوام کے خلاف گہری دشمنی کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
امریکی پابندیوں کا اطلاق ایران کے علاوہ افغانستان، میانمار، چاڈ، کانگو-برازاویل، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر ہوگا جبکہ 7 دیگر ممالک کے مسافروں پر جزوی پابندی عائد کی گئی ہے۔
علی رضا ہاشمی نے کہا کہ یہ پالیسی بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی اور کروڑوں لوگوں کو صرف ان کی قومیت یا مذہب کی بنیاد پر سفر کرنے کے حق سے محروم کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: امارات کا لبنان کے لیے اپنے شہریوں پر عائد سفری پابندی ختم کرنے کا اعلان، وزیر اعظم نواف سلام کا اظہار تشکر
یاد رہے کہ ایران اور امریکا نے سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے اور اس کے بعد سے ان کے تعلقات شدید کشیدہ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
12 مالک 12 ممالک پر امریکا سفر کی پابندی امریکا ایران ایران پر سفری پابندی