Express News:
2025-07-25@02:53:09 GMT

درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی تدبیر کریں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

اس بار اہل وطن نے عید الفطر کی خوشیاں پرامن ماحول میں منائیں، تینوں دن بخیریت و عافیت گزرے اور دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، جس کا کریڈٹ بلاشبہ سیکیورٹی فورسز اور حکومت کو جاتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے سامنے تاحال متعدد درپیش چیلنجز ہیں، جب کہ ملکی معیشت ٹیک آف کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، بشرطیکہ معاشی استحکام کے لیے مربوط پالیسیاں بنائی جائیں۔ دوسری جانب سیاست میں ہمیں برداشت، رواداری اور مکالمے کو فروغ دینا ہوگا، اسی میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔

اس وقت دنیا میں جاری جغرافیائی سیاسی منظر نامہ بہت سے ممالک میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا چین تعلقات، تائیوان پر ممکنہ تصادم، یوکرین میں جاری جنگ اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی ایک بڑھتی ہوئی تقسیم شدہ دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

پاکستان کو خارجی سطح پر افغانستان اور بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور مالی امداد کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے جب کہ عالمی حالات اور دنیا میں جاری تنازعات کا اثر پوری دنیا پر مہنگائی کی صورت میں پڑ رہا ہے اور پاکستان کے لیے بھی ان اثرات سے بچنا مشکل ہے۔ وطن ِ عزیز میں نہ صرف دہشت گرد گروہ فتنہ الخوارج کی بزدلانہ کارروائیاں ، مشکل معاشی صورتحال، مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی کشیدگی جیسے عوامل بھی ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں لہٰذا سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر چیلنجز سے نبرد آزماء ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 رمضان المبارک میں بھی مقامی انتظامیہ فعال رہی، بازاروں کی سیکیورٹی بھی بہتر رہی، پاکستان کی آبادی کا بھی ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے، خوراک، پانی اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات تک ان کی رسائی محدود ہے۔ ملک کی تقریباً 40% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور آنے والے برسوں میں اس تعداد میں اضافے کی توقع ہے کیونکہ محدود معاشی مواقع، تعلیم کی کمی اور ناکافی انفرا اسٹرکچر بڑے پیمانے پر غربت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ غربت، غذائیت کی کمی، صحت کی خراب دیکھ بھال، اور تعلیم تک محدود رسائی کا باعث بنتی ہے۔

پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 60% ہے، جس میں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان نمایاں تفاوت ہے۔ ناکافی فنڈنگ، ناکافی انفرا اسٹرکچر، اور قابل اساتذہ کی کمی تعلیمی نظام کی ترقی میں اہم رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں خواتین کو اکثر امتیازی سلوک، تشدد اور تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقعے تک محدود رسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماجی اور ثقافتی اصول، ناکافی قوانین، اور نفاذ کے محدود طریقہ کار صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہی صنفی عدم مساوات معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے، غربت کو برقرار رکھتی ہے اور سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتی ہے۔ معاشی نظام میں خواتین کو بھرپور مواقع ملنے چاہیں۔

پاکستان کو صحت کے نظام میں ناکافی فنڈنگ، ناکافی طبی سہولیات، اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی کمی کا سامنا ہے جب کہ معیاری صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی غربت، عدم مساوات اور سماجی ناانصافی کو برقرار رکھتی ہے۔ ملک میں آج بھی ملیریا، تپ دق، ہیپاٹائٹس، پولیو اور ایچ آئی وی/ایڈز جیسی بیماریوں پر قابو پانے میں اہم چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کے معاشی ترقی اور سماجی انصاف پر نمایاں اثرات ہیں۔

ناکافی قوانین، نفاذ کا محدود طریقہ کار اور استثنیٰ کا کلچر بدعنوانی میں معاون ہے۔ بدعنوانی معاشی ترقی کو روکتی ہے، غربت کو برقرار رکھتی ہے، اور اداروں پر اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔ پاکستان کے اداروں اور نظاموں میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے، عدم مساوات کو برقرار رکھتی ہے، اور حکومت پر اعتماد کو ختم کرتی ہے۔ پاکستان کی آبادی 2.

1% سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور حکومتی پالیسیوں پر دباؤ ڈالتی ہے، جس سے سماجی اور اقتصادی چیلنجز بڑھ جاتے ہیں۔ آبادی میں بے قابو اضافہ غربت، عدم مساوات اور سماجی بدامنی میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان کو بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، جس کے زراعت، آبی وسائل اور انسانی بستیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ جس میں متواتر قدرتی آفات، پانی کی کمی، اور گرمی کی شدت لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور معاش کو متاثر کرتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ہوتی ہے، پاکستان عالمی اخراج میں کم سے کم حصہ ڈالتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی غربت، عدم مساوات اور سماجی بدامنی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ذہنی صحت کے مسائل پاکستان میں عام ہیں، جس کے انفرادی اور اجتماعی بہبود کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ سماجی اور ثقافتی اصول، ناکافی قوانین، اور ذہنی صحت کی خدمات تک محدود رسائی دماغی صحت کے مسائل میں معاون ہے۔ دماغی صحت کے مسائل غربت، عدم مساوات اور سماجی بدامنی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے پورے ملک میں ایک کثیر جہتی نقطہ نظر ہموار کرنے کی ضرورت ہے جس میں ملک گیر اور یکساں حکومتی پالیسیاں، تمام طبقات معاشرہ اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعاون بھی شامل ہو کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا بڑا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود اس کے مسائل کا دوسرا بڑا متاثرہ ملک ضرور ہے۔

 جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف اسٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، اس وقت تک عوام کا اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی ملک کے اندر معیشت ٹھیک ہوگی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کو بھی باشعور حلقوں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں اضافے پر یک زبان رہے، اس حوالے سے سیاسی قیادت کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

اراکین پارلیمنٹ متحد ہو کر جس جذبے سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرتے ہیں کاش، اسی جذبے سے عوام کا بھی خیال کریں؟ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہمارے ارباب اقتدار کی سیاسی فہم و فراست میں گہرائی نہیں ہے۔ حکومت امیروں پر ٹیکس لگانے اور انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے مسلسل غریب طبقے اور تنخواہ دار افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ٹیکس قوانین کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے، اسی طرح دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کی دہی اشرافیہ، قبائلی وڈیرہ، پیر اور گدی نشین ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ان کے معیار زندگی کا سارا مالی بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔

 ادھر اپوزیشن میں شامل سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کی ساری جدوجہد بھی طبقاتی نوعیت کی ہے، اس میں عوام کے حقوق کے حوالے سے کوئی چیز شامل نہیں ہے۔ عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک بھی محض طبقاتی ریلیف لینے تک محدود رہے گی، صوبائی حکومتیں اپنی جوابدہی سے بچنے کے لیے وفاق کو نشانے پر لیتی ہیں حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی ذمے داریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔

اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ حکومت سے کہے کہ وہ عوام کی ترقی اور ملکی سلامتی کے لیے اپنا کردار اداکرے، قانون و آئین کی بالا دستی اور ملکی نظام حیات کو نئے سرے سے ترتیب دے تاکہ جمہوریت کو سہارا مل سکے۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ سنجیدہ فہمی کا مظاہرہ کرے کیونکہ ملک کے عوام کے مسائل بارے غور و فکر کرنا اسی کی ذمے داری ہے۔ اس وقت قومی مسائل میں دہشت گردی، معاشی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے حکومت کو ایک مربوط پالیسی مرتب کرنا پڑے گی۔

پاکستان کے مسائل میں اس وقت تک کمی نہیں آ سکتی جب تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں ہوتا ‘موجودہ حکومت کی ڈائریکشن ماضی کی حکومت کی نسبت درست سمت میں ہے تاہم اس کی راہ میں ابھی بہت سی کئی سنگین نوعیت کی رکاوٹیں بھی ہیں۔ ماضی کی قوتوں نے سسٹم کو خاصی حد تک کنٹرول میں رکھا ہے۔ ابھی بھی سسٹم پر اس کے اثرات خاصے گہرے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدم مساوات اور سماجی صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی پاکستان کی کا باعث بن میں اضافے کا سامنا کے مسائل سکتا ہے کے لیے صحت کے کی کمی

پڑھیں:

سوشل میڈیا اور ہم

انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم  جما لیے اور حکمران بن  بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ،  ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔

انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔

جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔

خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں  کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم  کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔  

آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔

ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں  کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔

آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔ 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی تعاون ناگزیر ہے، محمد اسحاق ڈار
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • پاکستان کو وائٹ واش کی خفت سے بچنے کا چیلنج درپیش
  • سندھ حکومت بارشوں کے بڑے اسپیل سے نمٹنے کیلئے تیار(غیر قانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی جاری)
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے؛ عالمی بینک
  • معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے، عالمی بینک
  • اے ڈی بی کی پاکستان میں مہنگائی اور معاشی ترقی کی شرح نمو میں کمی کی پیشگوئی
  • سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد اسمبلی میں جمع