ایمیزون نے ٹک ٹاک خریدنے کیلئے بولی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
ایمیزون نے چینی ملکیتی سوشل میڈیا ایپ ’ٹک ٹاک‘ خریدنے کے لیے وائٹ ہاؤس کو باضابطہ پیشکش جمع کرادی ہے۔
ذرائع کے مطابق کمپنی نے اس ہفتے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکریٹری کامرس ہاورڈ لٹ نک کو خط بھیجا، تاہم اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا کیونکہ اسے اس وقت جمع کرایا گیا جب امریکہ میں ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے والی ہے۔
یہ پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ میں ٹک ٹاک کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ اگر بائٹ ڈانس، جو ٹک ٹاک کی ملکیت رکھتی ہے، امریکی آپریشنز فروخت کرنے میں ناکام رہی تو ایپ کو 5 اپریل سے ملک میں بند کیا جا سکتا ہے۔
امریکی قانون سازوں نے گزشتہ سال 19 جنوری تک فروخت کی ڈیڈ لائن دی تھی، تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اس مدت میں 75 دن کی توسیع دی تھی۔
ذرائع کے مطابق ٹرمپ بدھ کے روز امریکہ میں ٹک ٹاک کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ مزید برآں، موبائل ٹیکنالوجی کمپنی ایپ لووِن نے بھی ٹک ٹاک خریدنے کے لیے پیشکش دی ہے۔
ٹک ٹاک ای کامرس کے لیے ایک بڑے پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے اور اس کا آن لائن مارکیٹ پلیس ”ٹک ٹاک شاپ“ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ایپ کے 17 کروڑ سے زائد امریکی صارفین اور اس کی تجارتی صلاحیت ایمیزون کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایمیزون نے ٹک ٹاک کے کامیاب ماڈل کو دیکھتے ہوئے اپنی ایک مختصر ویڈیو سروس لانچ کی تھی، لیکن بعد میں اسے بند کر دیا گیا۔
گزشتہ سال اگست میں ایمیزون اور ٹک ٹاک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت صارفین ٹک ٹاک کے ذریعے براہ راست ایمیزون سے خریداری کر سکتے تھے۔ تاہم اس معاہدے پر امریکی قانون سازوں نے قومی سلامتی کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جنگ غزہ کو روکنے کیلئے امریکی مفادات پر دباؤ ڈالنا ہوگا، المنصف المرزوقی
تیونس کے سابق صدر نے اعلان کیا ہے کہ آج عرب ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جاری جنگی جرائم کی مذمت کرنے کے بجائے خطے میں موجود امریکی مفادات پر دباؤ ڈالیں تاکہ اس ملک کے موقف پر عملی اثرات مرتب ہوں اور اسے اس وحشیانہ جنگ کے خاتمے پر مجبور کیا جا سکے اسلام ٹائمز۔ تیونس کے سابق صدر المنصف المرزوقی نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کے مطالبات کہ جن پر حماس عمل پیرا ہے، مکمل طور پر جائز، انسانی و منصفانہ ہیں جو ان لوگوں کے کم سے کم حقوق کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جنہیں دنیا بھر کی نظروں کے عین سامنے روزانہ کی بنیاد پر قتل عام اور جبری نقل مکانی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ المنصف المرزوقی نے تاکید کی کہ غزہ میں فلسطینی عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منظم نسل کشی ہے اور عالمی برادری کو اس سانحے سے نپٹنے کے لئے دوہرا معیار ترک کر دینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے پر امریکی حکومت کا موقف نیا نہیں بلکہ یہ غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی جنگ میں، شروع سے ہی اس قابض رژیم کی اندھی حمایت اور شراکتداری پر مبنی تھا۔
تیونس کے سابق صدر نے تاکید کی کہ امریکہ نہ صرف قابض صیہونیوں کی عسکری اور سیاسی سطح پر مکمل حمایت کر رہا ہے بلکہ اس نے انہیں غزہ کے عوام کو جان بوجھ کر بھوک و تباہی میں مبتلاء کرتے ہوئے جبری نقل مکانی پر مجبور کر دینے کی کھلی چھٹی بھی دے رکھی ہے۔ المنصف المرزوقی نے تاکید کی کہ امریکہ کا یہ مؤقف جرائم اور قانون کی خلاف ورزیوں کے ایک نئے مرحلے کو قانونی حیثیت دیتا ہے اور خطے میں انصاف و امن کے حصول کے کسی بھی موقع کو سرے سے ختم کر ڈالتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا رویہ اب محض جانبدارانہ ہی نہیں رہا بلکہ یہ بین الاقوامی اور عرب برادری کی براہ راست توہین اور ان بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی بن چکا ہے کہ جنہیں گذشتہ 2 سال سے مسلسل پائمال کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے سابق صدر نے اپنے بیان کے آخر میں مزید کہا کہ آج عرب ممالک کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ وہ ان جرائم کی مذمت کریں بلکہ انہیں چاہیئے کہ وہ خطے میں موجود امریکی مفادات پر دباؤ ڈالیں تاکہ اس کے موقف پر عملی اثرات مرتب ہوں اور اسے اس وحشیانہ جنگ کو ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔