افغانستان میں امریکی واپسی : خطے کے لئے نئے چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
جب سے ٹرمپ نے امریکی صدارت سنبھالی ہے دنیا حیرت انگیز تبدیلیوں سے گزر رہی ہے ۔ حلیف و حریف کی پرواہ کئے بغیر وہ نئی نئی پالیسیوں کا دھڑا دھڑ اعلان کئے جا رہا ہے ۔ کسی قریبی اتحادی کو ناراض اور کسی پرانے مخالف کو قریب لانے کے اقدامات لے رہا ہے ۔ جیسے اچانک افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات کر کے اس نے ایک بار پھر یہاں امریکی فوج کا اڈا قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ اس نے پورے خطے میں ارتعاش اور تشویش کو جنم دیا ہے ۔ آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ ایسی پیشرفت کا خطے پر عمومی اور ایران اور پاکستان پر خصوصی طور پر کیا اثرات ہوں گے ۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات کبھی انتہائی گہرے اور مضبوط تھے۔ دونوں ممالک سرد جنگ کے دوران اتحادی تھے اور 1955 ء میں تشکیل دیے گئے بغداد پیکٹ کے رکن تھے۔ ایران کے بادشاہ، شاہ محمد رضا پہلوی، امریکہ کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے اور ایران میں امریکی اثر و رسوخ نمایاں تھا۔ تاہم، 1979 ء کے اسلامی انقلاب نے ان تعلقات کو یکسر بدل دیا۔ ایران کی نئی قیادت نے امریکہ کو “Great Satan قرار دیا اور دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیاد پڑ گئی۔ اس کے بعد سے ایران اور امریکہ کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے ہیں، جس کے اثرات نہ صرف ان دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔
1980 ء میں ایران میں انقلاب کے بعد، امریکہ نے ایران کو کمزور کرنے کے لیے عراق کی حمایت شروع کر دی۔ اس وقت کے عراقی صدر، صدام حسین، کو ایران کے خلاف جنگ کے لیے اکسایا گیا اور امریکہ نے عراق کو جدید اسلحہ، مالی مدد اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں۔ یہ جنگ تقریبا آٹھ سال تک جاری رہی اور اس میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ دونوں ممالک کو زبردست نقصان پہنچا، جبکہ اسرائیل نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا کیونکہ مسلم دنیا میں داخلی تنازعات مزید گہرے ہو گئے۔
1990 ء کی دہائی میں امریکہ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس دوران ایران نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کیا اور خطے میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط کیا، جس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ 2000ء کے بعد ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکہ نے بین الاقوامی دبا بڑھایا اور ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں کیں۔ 2015 ء میں ’’پی فائیو پلس ون‘‘ معاہدہ ہوا، جس کے تحت ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا اور بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی۔ لیکن 2018 ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔
2021 ء میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج نکال لیں، جس کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھال لیا۔ تاہم، اب اطلاعات ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خاص طور پر بگرام ایئربیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو ماضی میں امریکی افواج کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک اڈہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو یہ پورے خطے کے لیے ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔
افغانستان میں امریکی واپسی کا مطلب یہ ہوگا کہ دہشت گرد تنظیموں کو ایک نئی قوت مل سکتی ہے، جو پاکستان اور ایران کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، کیونکہ خطے میں عدم استحکام بڑھنے کی صورت میں پاکستان پر عالمی دبائو میں اضافہ ہوگا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جبکہ سی پیک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر افغانستان میں امریکی موجودگی بڑھتی ہے تو چین کے مفادات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، جو پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔
ایران پر بھی امریکی دبائو میں اضافہ متوقع ہے۔ اگر بگرام ایئربیس کو امریکہ دوبارہ فعال کرتا ہے تو ایران پر حملوں یا سخت پابندیوں کا امکان مزید بڑھ سکتا ہے۔ امریکہ پہلے ہی ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کر رہا ہے اور اسرائیل بھی ایران کے نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کے امکانات کا عندیہ دے چکا ہے۔ اس صورتحال میں ایران کو سفارتی اور عسکری سطح پر اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔
پاکستان کو اس نازک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر یکجہتی پیدا کرنی ہوگی۔ داخلی سیاسی کشمکش کو ختم کر کے سیاسی مفاہمت اور استحکام پیدا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں انتشار کی فضا ختم ہو۔ قومی سلامتی کے معاملات پر تمام اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوام کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ سفارتی محاذ پر متحرک کردار ادا کرتے ہوئے خطے میں اپنے اتحادیوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا، خصوصاً چین، ترکی، ایران اور روس کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔ دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس اور عسکری حکمت عملی کو مزید مستحکم کرنا ہوگا تاکہ اندرونی اور بیرونی خطرات کا بروقت سدباب کیا جا سکے۔ پاکستان کو اپنی اقتصادی پالیسیوں کو بھی مستحکم کرنا ہوگا تاکہ معاشی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ملک کو دبائو میں نہ لایا جا سکے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: افغانستان میں دونوں ممالک میں امریکی کرنا ہوگا امریکہ نے اور ایران ایران اور ایران کے کو مزید رہا ہے اور اس کے بعد کے لیے
پڑھیں:
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔