وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کے بعد بجلی کی قیمتوں میں کمی کا عمل بھی شروع ہوگیا، کراچی سمیت ملک بھر کیلئے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی ایک روپے 90 پیسےفی یونٹ سستی ہوگئی۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، بجلی کی قیمت میں کمی اکتوبر تا دسمبر 2024 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں کی گئی۔

بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت 45.

05 روپے سے کم کرکے 37.64 روپے کردی گئی

جنرل سروسز کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7.18 روپے کمی کی گئی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی کی قیمت میں کمی کا اطلاق کے الیکٹرک سمیت تمام ڈسکوز صارفین پر ہوگا، بجلی کی قیمت میں کمی کا اطلاق اپریل سے جون 2025 تک  3ماہ کیلئے ہوگا، بجلی صارفین کو کمی سے 56 ارب 38 کروڑ روپے کا ریلیف ملے گا۔

بجلی کی قیمت میں کمی کا اطلاق لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا، بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی سستی کرنے کی درخواست کی تھی، نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی درخواست پر فروری میں سماعت کی تھی۔

خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا بڑا اعلان کیا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2 ہزار تین سو 93 ارب روپے کے گردشی قرضے کے خاتمے کا بھی بندوبست کرلیا ہے، اگلے پانچ سال میں گردشی قرضہ گردش نہیں کرے گا، ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنا انتہائی مشکل کام تھا، آرمی چیف اور ان کے رفقا کا معاشی استحکام کے لیے بھرپور تعاون رہا۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی بجلی کی قیمت میں کمی کا

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ناکارہ پاور پلانٹس کا ملبہ 46.73 ارب میں فروخت، قیمت اسٹیٹ بینک ماہرین نے مقرر کی
  • سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بڑی کمی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • ملک بھر میں سونے کی قیمت میں 5,900 روپے کمی ریکارڈ
  • پاکستان میں سونے کی قیمت کو بریک لگ گئی، ہزاروں روپے کی بڑی کمی
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • ڈالر کی قمت میں بڑی کمی کا امکان ہے، ذخیرہ اندوزی نہ کریں، ملک بوستان
  •   اسٹیٹ بینک کی طرف سے 9 ارب ڈالر خریدے جانے کاانکشاف