Daily Ausaf:
2025-04-25@11:59:01 GMT

Darkness at Noon

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

فریڈرک نطشے ایک جرمن فلاسفر اور استاد گزرا ہے جو 1844 ء میں پیدا ہوا اور 1900 ء میں وفات پا گیا۔ فلسفہ کے علاوہ اس کے دوسرے اشغال میں نثری شاعری، ثقافتی تجزیہ نگاری وغیرہ کا بھی کافی غلبہ رہا لیکن جس تندہی سے اس نے جدید فلسفہ پر کام کیا اس کی بدولت اس کے اقوال آج بھی زریں اقوال کے طور پر quote کیے جاتے ہیں۔
فریڈرک نطشے جب یونیورسٹی میں پروفیسر تھا تو اس وقت جرمنی کی یہ حالت تھی کہ وہ تقریباً سولہ حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔فرانس، بیلجئم آسٹریا اور یورپ کے دوسرے ممالک جرمنی کے علاقوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر اپنی ریاست کا حصہ بنا چکے تھے ۔ وہ جرمنی کی اس حالت پر جب بھی کلاس میں بات کرتا ہے تو نوجوان نسل اس کو قسمت پر ڈال دیتی ہے اور خدا کا کام کہہ کر معاملے سے جان چھڑاتی ۔ نطشے طالبعلموں کے اس رویے سے ایک نفسیاتی کرب کا شکار ہو جاتا۔ خدا کی قدرت ایک دن اسی کرب میں وہ یونیورسٹی کے گرائونڈ میں دن کے وقت لالٹین لے کر کھڑا ہو گیا۔ یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے اسکی اس حرکت پر کافی حیرانگی اور تعجب کا اظہار کیا اور نطشے سے پوچھا کہ دن کے وقت یہ لالٹین لئے کیوں کھڑے ہو جس کے جواب میں نطشے کہتا ہے Darkness at Noon ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔طلبا نے حیران ہو کر کہا پروفیسر صاحب آپ کو کیا ہو گیا ہے سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اندھیرا کہاں ہے۔ نطشے جواب دیتا ہے بالکل اس طرح جیسے تمہیں اپنی حالت نظر نہیں آ رہی تم اپنے لہو لہان اور ٹکڑوں میں بٹے ملک کو نہیں دیکھ پا رہے اس سے بڑھ کر جرمن قوم کیلیئے اندھیرا کیا ہو گا ! اندھیرا تمہاری عقلوں پر پڑ چکا۔ نطشے کے یہ الفاظ اسکے طالبعلموں کیلیئے بیداری کی ایک شمع جلاتے ہیں۔ نطشے کا ایک طالب علم آگے بڑھتا ہے اوراونچی آواز میں کہتا ہے ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت اور یوں نطشے کے دکھائے راستے پر وہ قوم جوق در جوق چلنا شروع کر دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی نہ صرف ایک دفعہ پھر اپنی اکائی حاصل کر لیتا ہے بلکہ اسی یورپ میں کمانڈنگ پوزیشن بھی حاصل کر لیتا ہے ۔
قارئین آپ جانا چاہیں گے کہ جس طالبعلم نے نطشے کی بات کو ایک نعرہ دیا کہ ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت، اس جرمن طالب علم کا کیا نام تھا ۔ اس کا نام بسمارک تھا اور جرمنی کی تاریخ میں اسے Iron man of Germany کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ کہانی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی جرمن قوم نے کس طرح اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو خاکسار کو لیاقت باغ کے جلسے میں گرجتی برستی شیرنی بینظیر کے وہ کلمات یاد آ رہے ہیں کہ ہم سنبھالیں گے پاکستان ہم بچائیں گے پاکستان۔ کاش اسکے ساتھ زندگی وفا کر جاتی اور تاریخ میں اسکا نام بھی بطور Iron Lady of Pakistan لکھا جاتا۔ وطن اج پھر اس شخص کی تلاش میں ہے جو قوم کو بتا سکے کہ یہ صوبائیت اور قومیت کے چکروں میں ہم کونسے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم کن اندھیروں کے سفر پر چل نکلے ہیں۔ میرا پاکستان اس وقت جس سب سے بڑے المیہ سے گزر رہا ہے وہ ہے اس کی وہ بدنصیبی کہ علم و شعور سے محروم طبقہ تو آسانی سے گمراہ ہو سکتا ہے لیکن ہماری بدنصیبی ان انتہائوں کو چھو رہی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن کر دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع ہو گیا ہے اور انھے جب اس امر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور سچائی بتائی جاتی ہے تو وہ کسی کی بات سننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان دنوں ہمارے سماج کا یہ دستور بن گیا ہے کہ جو وہ کہتے اور سمجھتے ہیں وہی سچ ہے دوسرے الفاظ میں وہ اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس سماجی روئیے پر اپنی قوم کو یکجہتی کا راستہ دکھانے والا نطشے کا ایک قول بڑا قابل غور ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ بعض اوقات لوگ سچ سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے وہم کو بکھرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔
قارئین آپ نے دیکھا ہو گا کہ راقم جب بھی کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو وہ عجز کی انتہائوں کو چھوتے ہوئے اپنے لیے لفظ خاکسار استعمال کرتا ہے اور اپنے آپکو طفل مکتب سے تشبیہہ دیتا ہے لیکن آج نطشے کے اس قول پر بات شروع کرنے سے پہلے از راہ مذاق وہ نطشے کو بتانا چاہتا ہے کہ بھائی تم ہو گے بڑے فلاسفر اپنے دور کے ہمارے اس دور میں آج کل ہم جیسے کئی تم سے بھی بڑے بناسپتی فلاسفر بیٹھے ہیں اور ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے اور تم نے اپنے قول میں جہاں یہ لکھا ہے کہ بعض اوقات میری سرکار یہ بعض اوقات کا صیغہ استعمال ہوتا ہو گا تمہارے زمانے میں ہمارے ہاں آج کل کے زمانے میں تو اکثر اوقات بلکہ مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے اور وہ اپنے وہم کو اس طرح سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جیسے وہ ان کا کوئی ذہنی تخیل نہیں بلکہ اس نے انکی کوکھ سے جنم لیا ہو۔ سنجیدگی سے سوچیں کہ نطشے کس وہم کی بات کرتا ہے تو دانش کدہ کے مکیں سمجھتے ہیں کہ یہ وہم وہ وہم ہے جو آج کل ہمارے معاشرہ کی اکثریت کے ذہنوں میں پیوست ہو چکا ہے کہ ہم سے بڑا اس دنیا میں پارسا کوئی اور نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایناں دی منجی تھلے ڈانگ پھیرو تے ایناں توں وڈا گناہ گار کوئی نہیں۔ ایسے اشخاص کے متعلق کسی نے کیا سچ لکھا ہے کہ ہر دیوار پہ تیرا نام لکھا ہے۔ کہیں صاحب، کہیں محترم ، کہیں جناب لکھا ہے۔ اوپر تلاش گمشدہ نیچے ذہنی توازن خراب لکھا ہے ۔ میرے وطن کہاں سے لاں نطشے اور کہاں سے لاں بسمارک۔ میرے پاس تو جو میسر ہیں وہ کچھ وڈیرے باقی لٹیرے ہیں باقی رہی بات ملک کی تو وہاں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نہیں چاہتے جرمنی کی لکھا ہے ہے اور

پڑھیں:

اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان

جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم موجودہ اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں کراچی میں ملین مارچ کیا ، 27 اپریل کو لاہور میں بھی ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینیوں کے حق میں ایک آوازہوں گے، 11 مئی کو پشاور میں جبکہ 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچتی ہے اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے اور خود مسلم امہ کی بھی آواز بن رہی ہے، یہ شرف پاکستان کو حاصل ہے تو ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا اس وقت ملک اور خصوصاً خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، عوام نہ بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں نہ ان کے لیے کما سکتے ہیں، کاروباری برادری سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں، اس حوالے سے حکومتی کارکردگی زیرو ہے، حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ دھاندلی کی نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی اور وفاقی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، جے یو آئی ف کو امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے ہی پلیٹ فارم سے ہی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، الیکشن، غزہ اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے ان پر جمیعت علمائے اسلام (ف) اپنے پلیٹ فارم سے ہی میدان میں رہے گی، البتہٰ روزمرہ معاملات میں کچھ مشترک امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں سے اشتراک کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اسٹریٹیجی جماعت کی شوریٰ کمیٹی طے کرے گی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، اپوزیشن کا ابھی تک باضابطہ اتحاد موجود نہیں ہے تاہم ہم باہمی رابطوں کو برقرار رکھیں گے لیکن اپوزیشن کے باقاعدہ اتحاد پر ہماری مجلس عمومی آمادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو خیبر پختونخوا میں پیش کیا جارہا ہے اور بلوچستان میں پیش ہوا ہے، ہماری مجلس عمومی نے اسے مسترد کیا ہے، بلوچستان میں ہمارے جن ممبران نے اس قانون کو ووٹ دیا ہے، ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان کے جواب سے جماعت مطمئن ہوئی تو ٹھیک ورنہ ان کی رکنیت ختم کی جائے گی، ہمیں اسمبلی میں اپنی تعداد کی پروا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

maualana fazl ur rehman الیکشنز پریس کانفرنس پی ٹی آئی اتحاد غزہ مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • کومل عزیز کس خوف کی وجہ سے شادی نہیں کررہیں؟ اداکارہ کا انکشاف
  • پی ٹی آئی بھارت کے بے بنیاد الزامات کی شدید مذمت کرتی ہے، بیرسٹر گوہر
  • پاکستان اپنے دفاع کا پورا حق اور صلاحیت رکھتا ہے، بیرسٹر گوہر
  • بھارتی اسکرپٹ، پہلگام کی آگ، سفارتی دھواں اور پاکستان
  • شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • سہواگ کی اپنے ہی کرکٹر پر سرجیکل اسٹرائیک، متنازع آؤٹ پر بول اُٹھے
  • جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ
  • اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ