فریڈرک نطشے ایک جرمن فلاسفر اور استاد گزرا ہے جو 1844 ء میں پیدا ہوا اور 1900 ء میں وفات پا گیا۔ فلسفہ کے علاوہ اس کے دوسرے اشغال میں نثری شاعری، ثقافتی تجزیہ نگاری وغیرہ کا بھی کافی غلبہ رہا لیکن جس تندہی سے اس نے جدید فلسفہ پر کام کیا اس کی بدولت اس کے اقوال آج بھی زریں اقوال کے طور پر quote کیے جاتے ہیں۔
فریڈرک نطشے جب یونیورسٹی میں پروفیسر تھا تو اس وقت جرمنی کی یہ حالت تھی کہ وہ تقریباً سولہ حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔فرانس، بیلجئم آسٹریا اور یورپ کے دوسرے ممالک جرمنی کے علاقوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر اپنی ریاست کا حصہ بنا چکے تھے ۔ وہ جرمنی کی اس حالت پر جب بھی کلاس میں بات کرتا ہے تو نوجوان نسل اس کو قسمت پر ڈال دیتی ہے اور خدا کا کام کہہ کر معاملے سے جان چھڑاتی ۔ نطشے طالبعلموں کے اس رویے سے ایک نفسیاتی کرب کا شکار ہو جاتا۔ خدا کی قدرت ایک دن اسی کرب میں وہ یونیورسٹی کے گرائونڈ میں دن کے وقت لالٹین لے کر کھڑا ہو گیا۔ یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے اسکی اس حرکت پر کافی حیرانگی اور تعجب کا اظہار کیا اور نطشے سے پوچھا کہ دن کے وقت یہ لالٹین لئے کیوں کھڑے ہو جس کے جواب میں نطشے کہتا ہے Darkness at Noon ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔طلبا نے حیران ہو کر کہا پروفیسر صاحب آپ کو کیا ہو گیا ہے سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اندھیرا کہاں ہے۔ نطشے جواب دیتا ہے بالکل اس طرح جیسے تمہیں اپنی حالت نظر نہیں آ رہی تم اپنے لہو لہان اور ٹکڑوں میں بٹے ملک کو نہیں دیکھ پا رہے اس سے بڑھ کر جرمن قوم کیلیئے اندھیرا کیا ہو گا ! اندھیرا تمہاری عقلوں پر پڑ چکا۔ نطشے کے یہ الفاظ اسکے طالبعلموں کیلیئے بیداری کی ایک شمع جلاتے ہیں۔ نطشے کا ایک طالب علم آگے بڑھتا ہے اوراونچی آواز میں کہتا ہے ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت اور یوں نطشے کے دکھائے راستے پر وہ قوم جوق در جوق چلنا شروع کر دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی نہ صرف ایک دفعہ پھر اپنی اکائی حاصل کر لیتا ہے بلکہ اسی یورپ میں کمانڈنگ پوزیشن بھی حاصل کر لیتا ہے ۔
قارئین آپ جانا چاہیں گے کہ جس طالبعلم نے نطشے کی بات کو ایک نعرہ دیا کہ ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت، اس جرمن طالب علم کا کیا نام تھا ۔ اس کا نام بسمارک تھا اور جرمنی کی تاریخ میں اسے Iron man of Germany کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ کہانی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی جرمن قوم نے کس طرح اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو خاکسار کو لیاقت باغ کے جلسے میں گرجتی برستی شیرنی بینظیر کے وہ کلمات یاد آ رہے ہیں کہ ہم سنبھالیں گے پاکستان ہم بچائیں گے پاکستان۔ کاش اسکے ساتھ زندگی وفا کر جاتی اور تاریخ میں اسکا نام بھی بطور Iron Lady of Pakistan لکھا جاتا۔ وطن اج پھر اس شخص کی تلاش میں ہے جو قوم کو بتا سکے کہ یہ صوبائیت اور قومیت کے چکروں میں ہم کونسے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم کن اندھیروں کے سفر پر چل نکلے ہیں۔ میرا پاکستان اس وقت جس سب سے بڑے المیہ سے گزر رہا ہے وہ ہے اس کی وہ بدنصیبی کہ علم و شعور سے محروم طبقہ تو آسانی سے گمراہ ہو سکتا ہے لیکن ہماری بدنصیبی ان انتہائوں کو چھو رہی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن کر دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع ہو گیا ہے اور انھے جب اس امر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور سچائی بتائی جاتی ہے تو وہ کسی کی بات سننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان دنوں ہمارے سماج کا یہ دستور بن گیا ہے کہ جو وہ کہتے اور سمجھتے ہیں وہی سچ ہے دوسرے الفاظ میں وہ اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس سماجی روئیے پر اپنی قوم کو یکجہتی کا راستہ دکھانے والا نطشے کا ایک قول بڑا قابل غور ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ بعض اوقات لوگ سچ سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے وہم کو بکھرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔
قارئین آپ نے دیکھا ہو گا کہ راقم جب بھی کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو وہ عجز کی انتہائوں کو چھوتے ہوئے اپنے لیے لفظ خاکسار استعمال کرتا ہے اور اپنے آپکو طفل مکتب سے تشبیہہ دیتا ہے لیکن آج نطشے کے اس قول پر بات شروع کرنے سے پہلے از راہ مذاق وہ نطشے کو بتانا چاہتا ہے کہ بھائی تم ہو گے بڑے فلاسفر اپنے دور کے ہمارے اس دور میں آج کل ہم جیسے کئی تم سے بھی بڑے بناسپتی فلاسفر بیٹھے ہیں اور ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے اور تم نے اپنے قول میں جہاں یہ لکھا ہے کہ بعض اوقات میری سرکار یہ بعض اوقات کا صیغہ استعمال ہوتا ہو گا تمہارے زمانے میں ہمارے ہاں آج کل کے زمانے میں تو اکثر اوقات بلکہ مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے اور وہ اپنے وہم کو اس طرح سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جیسے وہ ان کا کوئی ذہنی تخیل نہیں بلکہ اس نے انکی کوکھ سے جنم لیا ہو۔ سنجیدگی سے سوچیں کہ نطشے کس وہم کی بات کرتا ہے تو دانش کدہ کے مکیں سمجھتے ہیں کہ یہ وہم وہ وہم ہے جو آج کل ہمارے معاشرہ کی اکثریت کے ذہنوں میں پیوست ہو چکا ہے کہ ہم سے بڑا اس دنیا میں پارسا کوئی اور نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایناں دی منجی تھلے ڈانگ پھیرو تے ایناں توں وڈا گناہ گار کوئی نہیں۔ ایسے اشخاص کے متعلق کسی نے کیا سچ لکھا ہے کہ ہر دیوار پہ تیرا نام لکھا ہے۔ کہیں صاحب، کہیں محترم ، کہیں جناب لکھا ہے۔ اوپر تلاش گمشدہ نیچے ذہنی توازن خراب لکھا ہے ۔ میرے وطن کہاں سے لاں نطشے اور کہاں سے لاں بسمارک۔ میرے پاس تو جو میسر ہیں وہ کچھ وڈیرے باقی لٹیرے ہیں باقی رہی بات ملک کی تو وہاں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں چاہتے جرمنی کی لکھا ہے ہے اور
پڑھیں:
فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ !
انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس عبادت کا اصل مفہوم صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج کے چند ظاہری اعمال نہیں بل کہ بندے کے دل و دماغ، نیت، فکر اور ارادے کی اصلاح بھی ہے جو کہ ’’اصلاحِ نفس‘‘ کے جامع عنوان میں سمٹتی ہے۔
اسلام صرف ظاہر پر زور دینے والا دین نہیں بل کہ وہ باطن کی صفائی، قلبی طہارت، نیت کی درستی اور شخصیت کی اندرونی تعمیر پر نہایت شدّت سے زور دیتا ہے۔ انسان کا نفس اگر سنور جائے، اس کے باطن میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بہ خود سنور جاتا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کام یاب ہوگیا۔ اور بے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت کریمہ میں کام یابی اور ناکامی کا مدار صرف تزکیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو گندگی سے پاک کرے، وہی اصل فلاح پانے والا ہے اور جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جائے، وہ اﷲ کے ہاں ناکام و نامراد ہے۔
اصلاحِ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جن تین بنیادی مقاصد کے لیے مبعوث فرمایا، ان میں سے ایک نمایاں مقصد تزکیہ ہے۔ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعۃ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف تعلیم نہیں بل کہ باطنی تطہیر بھی ہے، جس کے بغیر محض علم فائدہ نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ نفس کی عملی تعلیم اپنے صحابہؓ کو دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے، مفہوم: ’’خبردار! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف ہے کیوں کہ دل ہی نیّت، ارادے اور فکر کا مرکز ہے اور اگر وہ فساد سے پاک نہ ہو تو ظاہری اعمال بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔
اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسِ امّارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’بے شک! نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف) انسان جب تک اپنے نفس کی تربیت نہ کرے، وہ خواہشات کی غلامی میں مبتلا رہتا ہے جس کا نتیجا یہ نکلتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس دراصل اس جہاد کا نام ہے جس میں بندہ اپنے اندرونی دشمن یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تربیت کی بہت سی عملی صورتیں صحابہ کرامؓ کو سکھائیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں آکر عرض کیا: حضور ﷺ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی غصہ بھی نفس کی ایک بڑی بیماری ہے جو آدمی کو ظلم، فحش گوئی اور فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ نفس کو قابو میں رکھو، اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھو اور دوسروں کو ایذا نہ دو۔ یہی اصلاحِ نفس ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور نفس کی اور اس کے درست بنانے کی قسم، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور فطری طور پر موجود ہے، اب اس پر لازم ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اپنائے اور یہ وہی اصلاحِ نفس ہے جس کا حکم اﷲ نے دیا ہے۔
اصلاحِ نفس صرف عبادات کا نام نہیں بل کہ وہ ایک مسلسل جہاد ہے جس میں انسان اپنے اخلاق، اپنی نیت، اپنے معاملات، اپنے غصے، حسد، بخل، تکبر، ریا اور ہر اُس چیز سے لڑتا ہے جو اﷲ کی رضا سے دور کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی) یعنی جہاد انسان کے اندر بھی ہے، وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا اور اﷲ کی رضا کو ترجیح دینا ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ بندہ جو بھی عمل کرے، محض اﷲ کے لیے کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان کے دل میں اﷲ کی رضا کی نیت ہو تو اس کا ہر عمل اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر نیت خراب ہو تو بڑا عمل بھی ریاکاری بن جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس کی ایک بڑی علامت تواضع و انکساری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اﷲ کے لیے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسند احمد) تکبر، نفس کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ شیطان اسی غرور کا شکار ہُوا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو عاجزی پر مجبور کرے تاکہ اﷲ کی رضا نصیب ہو۔
رسول اﷲ ﷺ کی سیرت اصلاحِ نفس کا مکمل نصاب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، حکم اور ارشاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بندہ کس طرح اپنے باطن کو سنوارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) اور خیر خواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا نفس صاف ہو، اس میں بغض، حسد، خود غرضی اور نفرت نہ ہو۔
اصلاحِ نفس کے لیے ذکرِ الٰہی، توبہ و استغفار اور صحبتِ صالحین کو انتہائی مؤثر ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) ذکرِ الٰہی نفس کو جِلا دیتا ہے، اس کی گندگی دھوتا ہے اور اسے اﷲ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح توبہ بھی ایک باطنی غسل ہے جو انسان کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر انسان خطا کرتا ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی) اسی طرح صحبتِ صالحین بھی اصلاحِ نفس کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) نیک لوگوں کی صحبت انسان کے باطن کو سنوارتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت نفس کو مزید خراب کرتی ہے۔
اصلاحِ نفس ایک مسلسل جدوجہد ہے، یہ کوئی وقتی عمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہے۔ عبادات میں اخلاص، معاملات میں دیانت، اخلاق میں حلم و بردباری، زبان میں سچائی، دل میں خوفِ خدا اور زندگی کے ہر فیصلے میں تقویٰ، نفس کی اصلاح کے بغیر دین کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت، خاص طور پر رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اصلاحِ نفس کی زندہ مثال ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود ہر مرحلے پر اپنے نفس کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھا بل کہ صحابہ کرامؓ کو بھی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکیں۔ ’’اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (سنن ترمذی)
الغرض یہ بات طے شدہ ہے کہ کام یابی کا راز نفس کی اصلاح میں ہے۔ دنیاوی فلاح، دینی پاکیزگی اور اخروی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! وہی کام یاب ہُوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ) لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اس کی بیماریوں کو پہچانیں، انھیں قرآن و سنت کے طریقے سے دور کریں اور اپنی زندگی کو تقویٰ، تواضع، اخلاص، ذکر اور توبہ سے بھر دیں۔ تبھی ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے جن کے متعلق اﷲ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ (النازعات)
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی میں نفس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ دنیا سے رخصت کرے تاکہ ہم جنّت کے ان وارثین میں شامل ہو سکیں جن کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ آمین