اسلام ٹائمز: امریکہ اسوقت اپنی تاریخ کے سب سے کمزور دور میں جی رہا ہے اور بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس تناظر میں وہ ایران سے جنگ جیسے ایک بڑے بحران اور چیلنج کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پس امریکہ کی یہ شیخیاں اور گیدڑ بھبکیاں ایران میں موجود انکے اندرونی ایجنٹوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہیں، لہذا ایران کو اندرونی فتنہ پروری سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ان دنوں سوشل میڈیا اور الیکٹرک میڈیا میں درج ذیل خبریں بکثرت دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
1۔ ایک مخصوص امریکی جنگی جہاز کی خلیج فارس کی طرف روانگی۔
2۔ قطر میں امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کی تعیناتی۔
3۔ خطے میں امریکی اڈوں کو الرٹ کر دیا گیا۔
4۔ ایران پر جلد بمباری کی جائے گی۔
5۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی بمباری میں ایران کے دفاعی مراکز مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
6۔ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی کارگو پروازوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
7۔ امریکا نے ایران کو انتباہی پیغام بھیج دیا ہے۔
8۔ روس نے امریکا کو ایران پر حملے سے خبردار کیا ہے اور۔۔۔۔۔۔
ان خبروں کی روشنی میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ
ا۔ غیر ملکی میڈیا اس طرح کی خبروں کو کیوں اہمیت دیتا ہے۔؟
ب۔ کیا امریکہ کے پاس ایران پر حملہ کرنے کے لیے ضروری شرائط ہیں۔؟
ج۔ کیا ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی رکاوٹیں ہیں۔؟
د۔ امریکہ کا مقابلہ کرنے میں ایران کی ممکنہ کمزوری کیا ہے۔؟
ان سوالوں کے جواب کے لیے چند نکات قابلِ غور ہیں۔
1۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی جب بھی کسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچتے ہیں تو وہ مخصوص میڈیا آپریشنز کے ذریعے نفسیاتی دباؤ پیدا کرتے ہیں، تاکہ مذاکرات کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھا سکیں۔ حالانکہ وہ فوجی تصادم کے خواہاں نہیں ہوتے ہیں۔
2۔ ایران کے ناسازگار اقتصادی اور معاشی حالات کو بہانہ بنا کر بے اطمینانی پیدا کرنا اور اندرونی انتشار پھیلانے کے منصوبے تیار کرنا، جیسے انہوں نے ماضی کی ناکام بغاوتوں میں باہر کے دباؤ کا سہارا لیا تھا۔ پس فوجی حملے کے پروپیگنڈے کا مقصد حزب اختلاف کو مضبوط کرنا اور ایران میں موجود انقلاب مخالف قوتوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔
3۔ جو اعلان کیا گیا ہے، اس کے مطابق امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے اور اس وقت شدید اقتصادی دباؤ میں ہے۔ امریکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے، لہذا ٹرمپ اور اس کی کاروباری سرشت کے لیے دو ٹریلین ڈالر کی اس جنگ کو برداشت کرنا بالکل بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ فوربس میگزین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران کے ساتھ فوجی تنازعے کی لاگت پہلے تین مہینوں میں 60 بلین سے 2 ٹریلین ڈالر کے درمیان ہوسکتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسی معیشت کے لیے بہت بھاری ہیں جسے داخلی چیلنجوں کا سامنا ہو۔
4۔ کسی بھی امریکی حملے کی صورت میں ایران کم سے کم لاگت اور فوجی سازوسامان کے ساتھ دنیا کی اہم اقتصادی شاہراہ آبنائے ہرمز کو بند کرسکتا ہے اور اس کا مطلب تیل کی قیمتوں میں 200 ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوگا، جسے دنیا اور امریکا برداشت نہیں کرسکیں گے۔
5۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کا ناکام تجربہ امریکیوں کے لیے ایک اور رکاوٹ ہے اور یہ ناکامی یقیناً ان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
6۔ ایران پر فوجی حملے کی علاقائی ممالک اور یہاں تک کہ یورپی ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر مخالفت امریکہ کو اس اقدام کے بارے میں فطری طور پر بہت زیادہ تذبذب کا شکار کرے گی۔
7۔ امریکیوں کے لیے اس وقت اصل ترجیح ایران پر حملہ نہیں ہے۔ امریکیوں کو چین، تائیوان، روس اور یوکرین جیسے اہم مسائل نیز یورپ اور کینیڈا کے ساتھ نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ کے لئے ایک نیا محاذ کھولنا بہت مہنگا پڑے گا۔
8۔ ایران کی فوجی طاقت اور ممکنہ انتقامی کارروائیاں ایک اور نکتہ ہے، جو امریکیوں کے لیے ایران پر حملہ کرنے کے فیصلہ کو مشکل بنا دیتا ہے۔ ایران کے میزائل اور ڈرون طاقت کے علاوہ، دنیا بھر میں مزاحمتی گروہ ایران پر امریکی حملے کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ مختصراً امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے کمزور دور میں جی رہا ہے اور بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس تناظر میں وہ ایران سے جنگ جیسے ایک بڑے بحران اور چیلنج کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پس امریکہ کی یہ شیخیاں اور گیدڑ بھبکیاں ایران میں موجود ان کے اندرونی ایجنٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہیں، لہذا ایران کو اندرونی فتنہ پروری سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران پر حملہ کے مطابق ایران کے کا سامنا کے ساتھ نہیں ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
کولمبیا میں صدارتی امیدوار میگوئل اوریبے پر قاتلانہ حملہ، حالت تشویشناک
دوسری جانب کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے ایکس پر اپنے بیان میں میگوئل اوریبے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کولمبیا کے صدارتی امیدوار میگوئل اوریبے پر ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بگوٹا میں ہوئے حملے میں میگوئل اوریبے شدید زخمی ہوئے ہیں اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق کولمبیا کے صدارتی امیدوار پر فائرنگ کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اوریبے کی والدہ ڈیانا ٹربے ایک صحافی تھیں، جنھیں 1991ء میں بدنام زمانہ اسمگلر پابلو ایسکوبار نے اغوا کر لیا تھا اور وہ ریسکیو آپریشن کے دوران ہلاک ہوگئی تھیں۔ دوسری جانب کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے ایکس پر اپنے بیان میں میگوئل اوریبے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔