سوشل میڈیا پر صدر مملکت کی صحت کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05اپریل 2025) صدرمملکت آصف علی زرداری کے ذاتی معالج ڈاکٹر حسین عاصم حسین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر صدر مملکت کی صحت کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،صدر آصف علی زرداری کی صحت بتدریج بہتر ہورہی ہے، کل یا پرسوں تک انہیں ہسپتال سے رخصت دیکر گھر بھیج دیا جائے گا، کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ بھارتی میڈیا پر صدرآصف زرداری کی صحت کے بارے میں غلط خبریں چلا ئی جا رہی ہیں۔
صدر مملکت کی صحت کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مخالفین جو بھی بات کریں، کسی بھی بات کو ٹوئسٹ کرتے رہیں لیکن افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ بھارتی میڈیا ہمارے سوشل میڈیا سے باتیں اٹھا کر مین سٹریم میڈیا پر پروپیگنڈہ کرتا ہے اس لئے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔(جاری ہے)
صدر مملکت کو بلڈ پریشر اور شوگر ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ صدر مملکت ہفتے کے روز اسلام آباد سے نوابشاہ گئے تھے اور عید کے دن ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی جس کے بعد انہوں نے خود مجھے کال کی میں نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ انہیں کراچی لے جانا زیادہ بہتر ہوگا۔ صدر کو فوری طور پر طبی نگہداشت فراہم کی گئی۔نوابشاہ میں صحت کی سہولیات محدود تھیں اس لئے صدر آصف علی زرداری کو کراچی منتقل کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا کا کم اثرات والا ویرینٹ اب بھی پھیل رہا ہے۔کورونا ابھی بھی پاکستان میں موجود ہے۔ اینٹی وائرس دوائیاں اب آگئی ہیں۔ڈاکٹر عاصم حسین کا گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ سینئر ڈاکٹرز کی ایک ٹیم صدر مملکت کا علاج کر رہی ہے۔آصف زرداری کی طبیعت اب بہتر ہے۔ آصف زرداری کی ملاقاتوں پر پابندی ہے۔ صرف ڈاکٹرز کو ہی ان تک رسائی حاصل ہے۔ ماہر ڈاکٹرز کا پینل آصف زرداری کی صحت کو مانیٹر کررہا ہے۔ آصف علی زرداری کے اہل خانہ کو روزانہ کی بنیاد پر صحت سے متعلق آگاہی دے رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جو خبریں چل رہی ہیں وہ مناسب نہیں۔ سوشل میڈیا پرآصف علی زرداری کی صحت کے حوالے سے چلنے والی خبریں جعلی ہیں۔ڈاکٹر عاصم حسین نے عوام سے اپیل کی ہے کہ افواہوں پر یقین نہ کریں اور صدر مملکت کی صحت کے حوالے سے صرف مصدقہ اطلاعات پر انحصار کریں۔عوام مستند ذرائع سے حاصل شدہ اطلاعات پر یقین کریں۔ سیاسی مخالفین جو مرضی کہتے رہیں حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بھارت تو ویسے ہی ہمارا دشمن ہے۔ وہاں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا تھا کہ ہسپتال سے صدرمملکت کی فوٹیج جاری کرنا یا نہ کرنا ایک سیاسی فیصلہ ہے جس پر حکومت یا ایوان صدر کو غور کرنا ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل صدر مملکت کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا تھا کہ آصف علی زرداری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور انہیں آئیسولیشن میں رکھا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صدرمملکت کے مختلف ٹیسٹ کئے گئے تھے اوران کی مکمل مانیٹرنگ کی جا رہی تھی۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت کے ذاتی ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی کہا تھاکہ آصف علی زرداری انفیکشنز ڈیزیز کے ماہرین کے زیرعلاج ہیں اور ان سے ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کراچی کے نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے اور ان کی مکمل دیکھ بھال کی جا رہی تھی جبکہ ان کے مزید ٹیسٹ بھی کئے جا رہے تھے۔صدر کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی بتایا تھا کہ مختلف ٹیسٹوں کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ صدر مملکت کورونا میں مبتلا تھے۔آصف زرداری کی طبیعت ناساز ہونے پر انہیں نواب شاہ سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
سوشل میڈیا اور ہم
انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم جما لیے اور حکمران بن بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ، ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔
انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔
جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔
خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔
ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔
آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔