آزادی اظہار فیض سے آج تک
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
پاکستان کی تاریخ آزادی اظہار پر قدغنوں کی ایک طویل داستان ہے۔ یہ کہانی صرف حکومتوں اور ریاستی اداروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں تک محدود نہیں بلکہ سماجی مذہبی اور نظریاتی جبرکی بھی عکاس ہے۔ فیض احمد فیض حبیب جالب اور دیگر اہلِ قلم نے ہمیشہ جبر کے خلاف آواز بلند کی مگر ہر دور میں سچ کہنے والوں کوکٹھن راستوں کا سامنا رہا۔ آج جب ہم اکیسویں صدی میں کھڑے ہیں تو آزادی اظہارکی صورتحال زیادہ پیچیدہ اور خوفناک ہو چکی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں صحافت اور آزادی رائے کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا، اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ صحافیوں کے اغوا قتل اور دباؤ کے بڑھتے واقعات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حکومتی اور غیر ریاستی عناصر تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ایک معروف صحافی کا قتل اور صحافیوں کی گمشدگی اور متعدد صحافیوں کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں سچ بولنا خطرے سے خالی نہیں رہا۔
پاکستان میں کئی ایسے صحافی اور یوٹیوبرز ہیں جو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزادی اظہارکا یہ حق صرف آئین کی کتابوں میں قید ہو چکا ہے؟ پاکستان کا آئین دفعہ 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی رائے کا حق دیتا ہے لیکن یہی حق جب طاقتوروں کے خلاف استعمال ہوتا ہے تو اسے بغاوت، غداری اور ملک دشمنی کا لیبل دے دیا جاتا ہے۔
فیض احمد فیض کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور اسی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جیسے وہ کسی حالیہ صورتحال پر لکھی گئی ہو۔’’ ہم دیکھیں گے‘‘ جیسے انقلابی اشعار آج بھی گلیوں عدالتوں اور سڑکوں پر گونجتے ہیں مگر جن زبانوں پر یہ الفاظ آتے ہیں وہی زبانیں خاموش کروا دی جاتی ہیں۔ یہ صرف شاعری اور نغمے نہیں بلکہ جبرکے خلاف ایک مزاحمتی بیانیہ ہے جسے ہر دور میں دبانے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندی کی ایک اور شکل خود ساختہ مذہبی اور سماجی جبر ہے۔ کسی بھی ناپسندیدہ رائے کو توہینِ مذہب ملک دشمنی یا اخلاقیات کے خلاف قرار دے کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔کئی ادیب ، صحافی اور طالب علم محض اپنے خیالات کے اظہارکی پاداش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں مشعال خان کا المیہ آج بھی تازہ ہے۔
ڈیجیٹل دور میں جہاں معلومات کی ترسیل پہلے سے زیادہ آسان ہوچکی ہے وہیں خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں لیکن سنسر شپ کے ہتھکنڈے بھی پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قدغنیں ویب سائٹس کی بندش اور بعض مخصوص الفاظ پر پابندی اس بات کی علامت ہیں کہ طاقتور قوتیں آزادی اظہار پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے خاص طور پر سیاسی اتار چڑھاؤ کے دوران تنقیدی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف سخت کارروائیاں دیکھنے میں آئیں اور کچھ صحافی تو ملک چھوڑ گئے۔ یہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان میں طاقتور طبقات کسی بھی قسم کی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
صحافت کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کئی ایسے مقدمات دیکھنے میں آئے جہاں عدالتوں نے آزادی اظہار کے حق میں فیصلے دیے مگر ان پر عملدرآمد کرانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے۔ دوسری طرف ایسے مقدمات بھی درج کیے گئے جن کا مقصد صرف تنقیدی آوازوں کو خاموش کروانا تھا۔
اگر عالمی سطح پر نظر ڈالیں، تو رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ پاکستان میں صحافت کرنا ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پاکستان کا عالمی درجہ مسلسل گرتا جا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ صورتحال صرف صحافیوں تک محدود نہیں۔ عام شہریوں کی رائے بھی کنٹرول کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ مختلف قوانین کا سہارا لے کر لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ان پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں جمہوریت کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آزادی اظہار کے بغیر کوئی بھی جمہوری نظام مکمل نہیں ہوتا کیونکہ یہی آزادی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے مسائل کو اجاگر کرنے اور عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ضروری ہے کہ صحافی ادیب، دانشور اور عام شہری متحد ہوکر اپنی آواز بلند کریں۔ جبرکے خلاف مزاحمت صرف چند افراد کی ذمے داری نہیں بلکہ یہ پورے سماج کا فرض ہے، اگر آج ہم نے سچ بولنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کردیا توکل جب ہماری آواز دبائی جائے گی، تو کوئی سننے والا نہ ہوگا۔
فیض جالب اور دیگر مزاحمتی آوازیں ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ سچ کا سفرکبھی آسان نہیں ہوتا مگر یہی سفر تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ آزادی اظہار پر قدغنیں وقتی ہو سکتی ہیں مگر سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
اسی تناظر میں فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوانے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
یہی وہ امید ہے جس کو سینوں میں روشن کیے لوگ آگے بڑھتے جاتے ہیں جو ایک بہتر سماج کے لیے تمام تکلیفیں سہتے ہیں اور ایک بہترکل کا خواب آنکھوں میں سجائے رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا زادی اظہار پر پاکستان میں جائیں گے جاتا ہے کے خلاف ہیں کہ کے لیے اس بات
پڑھیں:
پاکستان ہائی کمیشن لندن میں یوم دفاع کی تقریب، سیلاب متاثرین سے اظہارِ یکجہتی
لندن: پاکستان ہائی کمیشن لندن میں یوم دفاع پاکستان کے موقع پر ایک پروقار اور سادہ تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں وطن کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں حالیہ سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔
تقریب کا آغاز برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے قومی ترانے کی دھن پر پاکستانی پرچم کشائی سے ہوا۔ اس موقع پر ہائی کمیشن کے افسران، عملہ اور کمیونٹی کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔
شہداء کو خراجِ عقیدت، سیلاب متاثرین سے یکجہتی
اپنے کلیدی خطاب میں ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ یوم دفاع صرف ایک دن نہیں، بلکہ جذبے کا نام ہے جو ہر پاکستانی کو اپنے وطن کے لیے خدمت اور وفاداری کے عہد کی یاد دہانی کراتا ہے۔ انہوں نے وطن عزیز کے شہداء اور غازیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیاں پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بناتی ہیں۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ ملک کے دفاع میں شاندار کردار ادا کیا ہے، اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر آپریشن “بنیان مرصوص” کا ذکر کیا، جسے پاکستان کی عسکری تاریخ کا ایک سنہرا باب قرار دیا۔
مسلح افواج کے ساتھ قوم کا پختہ عزم
تقریب کے دوران یہ عہد دہرایا گیا کہ پوری قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور وطن کی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دے گی۔ کسی بھی اندرونی یا بیرونی سازش کو اتحاد اور قومی یکجہتی سے ناکام بنایا جائے گا۔
سیلاب متاثرین کے لیے دعا اور سادگی
اس سال تقریب کو سادگی سے منانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔ تقریب کے اختتام پر ملک کی سلامتی، شہداء، ہیروز اور سیلاب متاثرین کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتخانے ہر سال یوم دفاع کے موقع پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں مقامی کمیونٹی، ڈیفنس اتاشی، اور دیگر معزز مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس سال کی تقریبات کو قومی سانحے کے پیشِ نظر انتہائی سادگی سے منایا گیا۔