بی جے پی حکومت نے وقف بل پاس کر کے اپنے مسلم دشمن، اقلیت دشمن عزائم کا اعادہ کیا، روح مہدی
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
سرینگر سے جاری ایک بیان میں ان کا کہنا ثھا کہ آج بھارت ظالمانہ اکثریت پسندی کے ایک سیاہ دور میں داخل ہو گیا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق کو سلب کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس مسلمانوں کی بات کرنے کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز نہیں ہے اور وقف بل کو پاس کر کے آر ایس ایس، بی جے پی حکومت نے اپنے مسلم دشمن اور اقلیت دشمن عزائم کا اعادہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آغا مہدی نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ آج بھارت ظالمانہ اکثریت پسندی کے ایک سیاہ دور میں داخل ہو گیا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق کو سلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل کی منظوری کے ساتھ ہی آر ایس ایس، بی جے پی حکومت نے اپنے مسلم دشمن، اقلیت دشمن عزائم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی جماعت کو جس کے پاس ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ نہیں ہے، مسلمانوں کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا اور ان کی توہین کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمنٹ میں بل پر بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔بانہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں کشمیر کی ایک مسلم آواز کے طور پر بھی مجھے بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے مجھے سوچی سمجھی سازش کے تحت بولنے کی اجازت نہیں دی اور اس سے ان لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جن کی میں نمائندگی کرتا ہوں۔ آغا مہدی نے کہا کہ وقف کی خودمختاری کو چھیننا، وقف کو ختم کرنا اور قابضین کو مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دینا ریاست کی سرپرستی میں مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں پر اس متعصبانہ حملے سے ہماری جدوجہد مزید مضبوط ہو گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کی اجازت گیا ہے
پڑھیں:
پاراچنار میں نماز عید کا روح پرور اجتماع
اسلام ٹائمز: پاراچنار کے علاوہ قبادشاہ خیل، زیڑان،کڑمان، شلوزان، پیواڑ، بوڑکی، آڑخی، مالی خیل، سدارہ، سمیر، ابراہیم زئی، علی زئی اور دیگر علاقوں میں بھی مقامی سطح پر بڑے بڑے اجتماعات ہوئے اور نماز عید ادا کی گئی۔ استاد العلماء علامہ سید عابد حسین الحسینی نے زیڑان قباد شاہ خیل میں نماز عید پڑھائی۔ انہوں نے حکومت کو کڑی کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے نفاذ کے بعد بھی حکومت علاقے میں امن برقرار رکھنے اور راستے کھلوانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ رپورٹ: ایس این حسینی
ملک بھر کی طرح ہفتہ 7 جون کو مسلسل محاصرے، مسائل اور مشکلات کے باوجود ضلع کرم میں سابقہ رسم و رواج کے مطابق عید قربان مذہبی جوش و جذبے اور اخترام کے ساتھ منائی گئی۔ پاراچنار سمیت کرم کے تمام دیہات اور قصبوں میں نماز عید ادا کی گئی۔ نماز عید کا سب سے بڑا اجتماع مرکزی عیدگاہ پاراچنار میں منعقد ہوا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مرکزی جامع مسجد کے قائم مقام پیش امام علامہ ڈاکٹر سید احمد حسین الحسینی نے نماز عید پڑھائی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حکومت سے اپیل کی کہ علاقائی مشکلات کو جلد از جلد ختم کراتے ہوئے راستوں کو عام روٹین کے مطابق کھلوائیں۔ انہوں نے عوام سے بھی گزارش کی کہ امن کی بحالی میں انجمن حسینیہ، علاقائی عمائدین اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔
پاراچنار کے علاوہ قباد شاہ خیل، زیڑان،کڑمان، شلوزان، پیواڑ، بوڑکی، آڑخی، مالی خیل، سدارہ، سمیر، ابراہیم زئی، علی زئی اور دیگر علاقوں میں بھی مقامی سطح پر بڑے بڑے اجتماعات ہوئے اور نماز عید ادا کی گئی۔ استاد العلماء علامہ سید عابد حسین الحسینی نے زیڑان قباد شاہ خیل میں نماز عید پڑھائی۔ انہوں نے حکومت کو کڑی کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے نفاذ کے بعد بھی حکومت علاقے میں امن برقرار رکھنے اور راستے کھلوانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طوری بنگش قبائل کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے، یہاں پر بغیر کسی کانوائے کے سرکاری اور غیر سرکاری گاڑی آجا سکتی ہے۔ تاہم بالش خیل سے لیکر چھپری تک سوائے علی زئی کے تمام علاقوں حکومتی رٹ ابھی تک قائم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ذمہ داران قوم، مرکز و تحریک، جرگہ ممبران، عمائدین و مشران سے درخواست کی کہ مسئلے کا حل جلدی نکالیں کہ اب کافی دیر ہوچکی ہے۔ مزید دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
خیال رہے کہ کرم کے راستے اب بھی پوری طرح کھلے نہیں۔ کوئی دس دن میں ایک بار کانوائےکی صورت میں بڑی گاڑیوں کیلئے راستہ کھل جاتا ہے۔ مریض اور دیگر مسافر عام مسافر بردار گاڑیوں کی بجائے ایمبولینسز میں سفر کرتے ہیں اور( نارمل ریٹ) 1000 روپے فی سواری کی بجائے 3500 تا 5000 روپے ادا کرکے پاراچنار اور پشاور کے درمیان فاصلہ طے کرتے ہیں۔ پٹرول اس وقت 290 روپے فی لٹر بکتا ہے۔ باقی ہر چیز مہنگے داموں دستیاب ہے۔ اس پر بھی حکومت عموماً عوام پر احسان جتاتی ہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کم کر دیئے گئے ہیں۔ عوام کی مشکلات میں چونکہ 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، لہذا وہ اسے بھی غنیمت خیال کرتی ہے۔