ٹرمپ کی ایران کو دھمکیاں
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: ٹرمپ کی ایران کو دھمکیاں
Trump's threats to Iran
مہمان تجزیہ نگار: سید راشد احد
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 6 اپریل 2025
ابتدائیہ
اتوار۲۵مارچ کو این بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ (ایرانی حکام) معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہو گی اور بمباری بھی ایسی جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔‘
ٹرمپ کی اس گیدڑ بھبکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پیر کے روز خبردار کیا کہ اگر امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو اسے سخت جواب دیا جائے گا
اسی طرح رہبر انقلاب اسلامی کے سینئر مشیر اور سابق اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے رہبر انقلاب کا فتوی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا، لیکن اگر امریکہ نے کوئی بڑی غلطی کی، تو ایران عوام کے دباؤ کے نتیجے میں ایٹمی ہتھیار بنانے پر مجبور ہوجائے گا۔ امریکی ماہرین خود بھی سمجھ چکے ہیں کہ ایران پر حملہ اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی طرف لے جائے گا۔
ذرائع کے مطابق روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں کو نامناسب قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکی دھمکیوں کو ایرانی فریق کے خلاف ڈکٹیشن کا ذریعہ سمجھتے ہیں، تاہم یہ طرزعمل صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دے گا اور مجموعی طور پر، مشرق وسطیٰ میں تنازع کے خطرے سے بچنے کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
خلاصہ گفتگو و اہم نکات: ٹرمپ کی آمد نے خطہ کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار اپنے زوال کو روکنے کے لئے دیا ہے
انسانی سماج پہ امریکی سامراج کی طاقت کا رُعب ختم ہوتا جارہا ہے
ٹرمپ کے پاس بھی صرف شعلہ بیانیاں اور خالی خولی باتیں ہیں
امریکہ کا سمندری راستوں پہ بھی قبضہ و اختیار ختم ہوچکا ہے
ٹرمپ کے ذریعے صیہونی قوتیں امریکی ضعف شدہ اقتدار کو بحال کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں
ایران کو دھمکیاں دینے کے بعد تو امریکہ کے روایتی حلیف بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہے
چین اور روس ، فرانس جیسے ملک بھی خاموش تماشائی نہیں بنیں گے
ایران تو امریکی دھمکیوں کسی خاطر میں نہیں لارہا
ایران تو براہ راست مذاکرات کرنے کو بھی تیار نہیں
مذاکرات کے حوالے سے امریکہ تو ایران کے لئے ناقا بلِ اعتبار ملک ہے
ایران کسی بھی طرح نہ تو خوفزدہ ہے، اور نہ ہی کمزور ہے
رہبر معظم نے امریکہ کو واضح طور پہ کہہ دیا تمہیں اپنی حرکت پہ طمانچے پڑیں گے
امریکی و صیہونی صرف معصوم عوام کے قتل عام کے عادی ہیں
گزشتہ پچھتر برس سے فلسطینی و لبنانی اور یمنیوں کی مزاحمت نے ثابت کردیا کہ موت سے خوف نہیں
عالمی اقتصادی صورت حال میں امریکہ کساد بازاری بڑھتی جارہی ہے
امریکی اسٹیبلشمنٹ پہ احمق اور بے وقوف مسلط ہیں
اسلامی انقلاب دنیا کی مظلوم اقوام کو سامراج کے خلاف قیام کا حوصلہ عطا کیا ہے
اب تو امریکی اتحادی بھی ایران کے خلاف اپنی سرزمین دینے سے انکاری ہیں
اس وقت ٹرمپ کی امریکی پالیسیاں ان کے ضعف اور کمزوری کا اظہار ہیں
امریکی سامراج اور صیہونی اب زوال کے نشیب میں گرتےجارہے ہیں
قطر اب بھی اسرائیل کے ساتھ مل کر جنگی مشقیں کررہا ہے
عرب ممالک میں صرف یمنی و لبنانی مجاہدین ہیں جو امریکہ و اسرائیل کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں
لگتا یہ ہے کہ امریکی سامراج کے ساتھ ساتھ صیہونی قوت کا ڈرامہ اختتام ہورہا ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کے ٹرمپ کی کے خلاف
پڑھیں:
غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
اسرائیل کی ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے غزہ میں جاری جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کرنے پر امریکی جیل میں قید محمود خلیل اپنے بیٹے کی ولادت کے موقع پر بھی جیل سے باہر آ کرنومولود کو نہ دیکھ سکے۔
اسرائیلی جنگ کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج کو امریکی صدر کے مشیران یہود دشمنی قرار دیتے ہیں۔ تاہم احتجاج کرنے والے فلسطینی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
امریکہ کے علاوہ یورپی ملکوں میں بھی اسرائیل کی غزہ جنگ کی مخالفت اور فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کو یہود دشمنی ہی قرار دیا جاتا ہے۔
ادھر اسرائیل بھی ایسے احتجاج پر ناپسندیدگی ظاہر کرتا ہے جس میں کوئی احتجاجی غزہ کے ہلاک شدہ فلسطینی بچوں کی تصاویر اٹھا کر لانے کی کوشش کرتا ہے۔
محمود خلیل کو بھی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے کے اسی جرم میں امریکی امیگریشن حکام نے آٹھ مارچ سے حراست میں لے رکھا ہے۔ امریکی حکام اس کے باوجود محمود خلیل کو امریکہ سے ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہیں کہ محمود خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ امریکی شہری ہیں اور اپنی اہلیہ کی وجہ سے وہ امریکہ میں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔
ان کی اہلیہ نور عبداللہ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ امریکہ کے متعلقہ حکام نے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر محمود خلیل کو عارضی طور پر رہا کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو دیکھ سکتے ۔
خلیل نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکہ میں احتجاج کرنے والوں میں نمایاں رہے ہیں۔ نور عبداللہ کے مطابق ‘آئی سی ای’ نامی ادارے نے ان کے شوہر کو اپنے خاندان کے لیے اس اہم موقع پر بھی عارضی رہائی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
نور عبداللہ نے اس انکار پر اپنے بیان میں کہا’ آئی سی ای’ نے عارضی رہائی سے انکار کر کے مجھے ، محمود اور ہمارے نومولود کو سوچ سمجھ کر اذیت میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے میرے نومولود بیٹے نے دنیا میں آنے کے بعد پہلا دن ہی اپنے والد کے بغیر دیکھا۔ میرے لیے بھی یہ بہت تکلیف دہ صورت حال ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے یہ ہمارے قیمتی اور خوبصورت لمحات چھین لیے ہیں۔ تاکہ محمود کو فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کرنے سے خاموش کرا سکیں۔
یاد رہے خلیل کی اہلیہ نے بچے کو نیو یارک میں جنم دیا ہے جبکہ خلیل کو نیو یارک سے ایک اور امریکی ریاست میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ تاکہ انہیں اس جج کی عدالت میں پیش کرنا ممکن ہو سکے جو ٹرمپ کی حالیہ کریک ڈاؤن پالیسی کا حامی ہو۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نےحال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ 1950 کے قانون کے تحت امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس غیر ملکی کو ڈی پورٹ کر دے جو امریکی خارجہ پالیسی سے اختلاف رکھتا ہو۔ تاہم روبیو نے یہ بھی کہا امریکہ میں اظہار رائے کی پوری آزادی ہے
Post Views: 1