ہمارا نوجوان ترقی میں دنیا سے پیچھے کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
موجودہ دور میں جب ملک کی آبادی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی میں دیگر صنف کی نسبت زیادہ ہے۔
حیرت انگیز طور پر 30 سال سے کم عمر نوجوان اس ملک کی کل آبادی کا 64 فیصد ہیں۔ اس طرح ساؤتھ ایشیا ریجن میں پاکستان نوجوانوں کی اس تعداد کے ساتھ دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس لیے حکومتیں کوئی بھی منصوبہ بندی کرتے وقت نوجوانوں کو مدنظر رکھتی ہیں اور اسی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
دوسری طرف نوجوانوں کے ذریعے ہی مثبت اور منفی تبدیلی کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے ماضی میں ہم دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں نوجوانوں کی شمولیت ناگزیر رہی ہے اور پھر اسی بریگیڈ کو سیاسی و مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا نوجوان جلدی سے ان جماعتوں کے پیچھے کیوں لگ جاتا ہے؟ کیوں اپنی تعلیم کو اپنی ترقی کو خیر باد کہہ کر کسی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ کیوں مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ کر ترقی کے میدان میں دنیا کے نوجوانوں سے پیچھے رہ جاتا ہے؟ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا یکساں نہ ہونا ہے۔
آپ ملاحظہ کیجیے ملک میں اس وقت کم و بیش تین طرح کے نظام تعلیم موجود ہیں۔ ایک نظام تعلیم وہ ہے جس میں غریب طلبا کی بھرمار ہے، جس میں دیہاتوں اور شہروں کے غریب بچے پڑھتے ہیں اور جو سرکاری طور پر اسکولوں میں رائج ہے۔ ماضی میں یہ نظام تعلیم بہت عمدہ تھا۔ اساتذہ محنت کرتے تھے۔ نصاب بنانے پر بھی خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ اسکولوں میں طلبا اور اساتذہ کی حاضری سو فیصد تھی۔ سرکاری اسکولوں میں داخلے کےلیے انٹری ٹیسٹ دینا پڑتا تھا اور اسکولوں میں ہاؤس فل جیسی صورتحال تھی لیکن جیسے ہی نجی اور پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے شعبے میں قدم رکھا، ایک ایسی سوچ پیدا کردی گئی کہ سرکاری اسکولوں سے تعداد کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوگئی۔ اب ان اسکولوں میں جہاں طلبا کی پرفارمنس سو فیصد رہتی تھی، اُس پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔
اب صورتحال یہ کہ کتابیں مفت، فیس معاف لیکن اس کے باوجود بھی گورنمنٹ اسکولوں میں والدین اپنے بچوں کا داخلہ کروانے سے گریزاں ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ نجی و پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں میں بہتر تعلیم دی جا رہی ہے تو پھر وہ ان اسکولوں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے ان اسکولوں میں تعلیم پانے سے ہی آپ کا بچہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
ملک میں دوسرا نظام تعلیم پرائیویٹ اور نجی اسکولوں کا ہے جو آپ کو جگہ جگہ، گلی محلوں میں نظر آئیں گے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے بیشتر اسکول کرایے کے مکانوں میں نظر آتے ہیں۔ جن میں نہ کوئی کھیلنے کو گراؤنڈ ہے اور نہ ہی انڈور گیمز کےلیے جگہ ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ ٹیچرز۔ فیسوں کےلیے اُن کا اپنا طریقہ کار ہے لیکن نام محض انگلش میڈیم ہیں، کتابیں بھی انگلش میں ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں کو انگلش نہیں آتی۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے ناموں کے اسکولوں کے بچوں کو انگریزی نہیں آتی کیونکہ کتابیں انگریزی میں ہونے کے باوجود پڑھایا اردو میں جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو انہیں انگریزی آتی ہے اور نہ ہی ٹھیک سے اردو آتی ہے، یعنی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی صورتحال ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی بچہ بہتر طور پر لکھ سکے ورنہ بڑی تعداد اچھی لکھائی اور پڑھائی سے محروم ہے۔
ملک میں تیسرا نظام تعلیم اشرافیہ اور امرا کےلیے ہے اور بڑے اسکول ان کےلیے مخصوص ہیں، ان اداروں میں غریب اور متوسط طبقے کے بچے کا پڑھنا کسی خواب سے کم نہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے بچے بیوروکرویٹس، سیاست اور بزنس مین بنتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ملک کے تیسرے نظام تعلیم کے اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی رہنے کے آداب، قائدانہ صلاحیتوں کے گر اور ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں بے تحاشا ہیں اور باوجود بہت زیادہ فیسوں کے یہاں داخلہ ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی بڑی سفارشیں کرائی جاتی ہیں، داخلہ کےلیے امتحان لیا جاتا ہے اور خاصی تگ و دو کے بعد داخلہ ملتا ہے اور اگر کسی بااثر فرد کے بچے کو داخلہ نہ ملے تو پھر ادھر اسکینڈل کا بننا لازمی امر ہے۔ ماضی میں ایسے ہی اسکینڈل کی وجہ سے ایک بڑے اسکول کے غیر ملکی پرنسپل کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔
کم و بیش یہی صورتحال ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ہے اور اسی طرح وہاں میڈیا کے ذریعے ان کے تعلیمی نظام پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور وہ اپنی فلموں اور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس طرح کے موضوعات منظر عام پر لاتے رہتے ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر انہوں نے فلم آراکشن، پاٹ شالہ اور ہندی میڈیم (اس فلم میں پاکستانی آرٹسٹ صبا قمر نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے) میں ہندی نظام تعلیم پر سوالات اٹھائے ہیں اور اس میں اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو اس کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے مختلف حوالوں سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ جیسے یکساں نصاب تعلیم کا مسئلہ ہمیشہ ہی اٹھایا گیا ہے۔ قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کےلیے گزشتہ 77 سال سے آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کا 2015 کا تاریخی فیصلہ بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان کے بغیر تدریس کا عمل ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں تجویز پیش کی جاتی رہی کہ انگریزی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان کا درجہ دیا جائے لیکن تاحال ایسا ممکن نہیں ہوا۔
ایسا فرض کرلیا گیا ہے کہ انگریزی کی تدریس کے بغیر ترقی کا ہونا ممکن نہیں۔ اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تو دنیا میں ایسے بیشتر ملک موجود ہیں جن میں فرانس، جاپان، چین، جرمنی، روس، ایران، ترکی اور نہ جانے ایسے کتنے ہی ملک ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا اور اسی میں ترقی کی۔ وہ اگر کسی دوسرے ملک کے طالب علم کو اسکالرشپ دیتے ہیں تو آپ کو ان کے ملک کی زبان آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ چائنا اور ترکی جانے کے خواہشمند افراد کو ان ممالک کی زبان سکھانے کےلیے ہمارے ملک میں ان کی زبان سیکھنے کے کوچنگ سینٹر نظر آئیں گے۔
میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں اور اسے ترقی کی علامت بھی سمجھتا ہوں لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ جن تعلیمی نظاموں کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہاں وہی انگریزی پڑھائی جائے جو تیسرے قسم کے نظام تعلیم میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی نصاب صرف مرکز یعنی وفاقی سطح پر بنایا جائے اور تمام صوبوں پر اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر انگریزی میں تعلیم دینا اتنا ہی ضروری ہے تو انگریزی اساتذہ کا بندوبست ملک کے دور دراز کے اسکول میں بھی ہونا چاہیے۔ ان اسکولوں میں بھی وہی سہولیات دی جانی چاہئیں جن کی وجہ سے اس دور دراز کے گاؤں کے بچے بھی بڑے شہروں کے بچوں کا مقابلہ کرسکیں اور وہ دنیا بھر میں بچوں کا مقابلہ کرسکیں۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے کہ جب دوسرے ملکوں کے ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے ملک کے اتنے لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم 77 سال کے باوجود ہم سو فیصد شرح خواندگی پر نہیں پہنچ سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم سے علیحدہ ہونے والا ملک ہم سے تعلیم کے مقابلے میں کہیں آگے نکل گیا ہے۔
آپ انگریزی زبان کا اثر ہمارے معاشرے پر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بولنے والی زبان میں ہم بیشتر الفاظ انگریزی کے استعمال کرتے ہیں۔ جب اس خطے پر مسلم اُمہ کا دور دورہ تھا تو اُس وقت ہماری قومی زبان میں فارسی کے الفاظ نظر آتے تھے لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد تو گویا ایسی تبدیلی آئی کہ انگریزی برصغیر کے رہنے والوں پر مسلط کردی گئی۔ جس کا اثر انگریزوں کے جانے کے بعد آج تک باقی ہے۔ موجودہ دور میں آپ مشاہدہ کریں کہ ملک بھر میں ہماری دکانوں، ہوٹلوں اور اسکولوں کے نام انگریزی میں رکھے جاتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل فیس بک اور انسٹا گرام پر پیغامات کی رسانی اردو میں ضرور کرتی ہے لیکن وہ اردو انگریزی میں لکھی ہوتی جسے وہ بڑے فخر سے رومن اردو کا نام دیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے یکساں نظام تعلیم پر توجہ دے اور قومی زبان کی تعلیم کے حوالے سے غور و فکر کرے۔ انگریزی زبان کو تعلیم میں اختیاری حیثیت دی جائے اور طلبا کو چوائس دی جائے کہ وہ قومی زبان اور انگریزی دونوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے گا ورنہ ہم مستقبل میں بھی یہ راگ الاپ رہے ہوں گے کہ ہم کون سی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر اپنے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوانوں کی صف میں کھڑا کرسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان اسکولوں میں نوجوانوں کی نظام تعلیم لیکن اس کے میں تعلیم کے باوجود تعلیم کے کے اسکول تعلیم پر میں بھی جاتا ہے ہیں اور کی جاتی جاتی ہے کے ساتھ ملک میں ملک کے کے بچے اور نہ ہیں کہ گیا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے یو ایس ایف کے زیر اہتمام آئی سی ٹی شعبے میں خواتین کے عالمی دن 2025 کے سلسلے میں منعقدہ "گرلز ان آئی سی ٹی فار انکلوسیو ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن" کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام اور یو ایس ایف کے سینئر حکام، رکن قومی اسمبلی محترمہ شرمیلا فاروقی، موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے سی ای او حارث محمود، جی ایس ایم اے کی کنٹری لیڈ محترمہ سائرہ فیصل، ماہرین تعلیم، ممتاز خواتین آنٹرپرینیورز، ٹیلی کام سیکٹر بشمول جاز، آئی ٹی اور ٹیلی کام انڈسٹری کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ نے کہا کہ ایک پاکستانی خاتون کی حیثیت سے انہوں نے ایک نوجوان خاتون کی زندگی میں ٹیکنالوجی کی تبدیلی کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران، ٹیکنالوجی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے عملی جامہ پہن رہے ہیں جس کے نتیجے میں آج آئی ٹی شعبے میں بہت سی ٹاپ اسٹوڈنٹس خواتین ہیں، اور خواتین کی زیر قیادت ٹیک وینچرز نے عالمی پلیٹ فارمز پر بھی دھوم مچانا شروع کر دی ہے۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ یہ کامیابی ان کے انتھک محنت اور حکومتی معاون پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، آئیے مل کر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں ہر لڑکی اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکے اور جہاں بااختیار بنانا کوئی خواب نہیں بلکہ ڈیجیٹل حقیقت ہو۔
نیشنل براڈ بینڈ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک یو ایس ایف نے بلاامتیاز ملک کے چاروں صوبوں میں 161 منصوبوں کے ذریعے 4،400 موبائل ٹاورز لگائے ہیں جبکہ 17 ہزار 200کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعے ایک ہزار سے زائد ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو منسلک کیا گیا ہے۔
اس طرح اب تک مجموعی طورپر دور دراز علاقوں کے 3 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد کو ڈیجیٹل سروسز فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں پہلی بار ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہوتے ہوئے اپنی تعلیم، معلومات میں اضافے کے ساتھ، کاروبار کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال وزیر اعظم نے یو ایس یف کو 23 ارب روپے کے فنڈز دیئے ہیں۔
وفاقی وزیر ائی ٹی نے کہا کہ ہماری وزارت ملک کے نوجوانوں خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے اور ڈیجیٹل سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن تعاون اور اقدامات کررہی ہے۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ وزارت آئی ٹی خواتین کو ہرسطح پر سپورٹ کرتی ہے،برابری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں، خواتین کے ساتھ ہمارے معاشرے اور مردوں کا رویہ لمحہ فکریہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، ہماری خواتین میں کوئی کمی نہیں، ملک ترقی اسلئے نہیں کرتا کہ آدھی آبادی کو بہترماحول میسر نہیں۔