ممبئی(شوبز ڈیسک)بالی وڈ اسٹار کرینہ کپور اداکار شاہد کپور کے ساتھ کئی برس تعلق میں رہیں لیکن رومانوی کہانیوں کی طرح اس جوڑے کی محبت بھی بریک اپ کی صورت اختتام پذیر ہوئی اور دونوں نے 2007 میں راہیں جدا کرلیں۔

حال ہی میں کئی برس بعد کرینہ اور شاہد کو آئیفا ایوارڈز 2025 سے جڑی پریس کانفرنس میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سے ملتے دیکھ کر مداح خوش ہوگئے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شاہد سے بریک اپ کے بعد کرینہ کے ان کیلئے کیا خیالات تھے؟

بھارتی میڈیا پر کرینہ کپور کا ماضی میں دیا گیا ایک انٹرویو شیئر کیا گیا ہے جس میں کرینہ نے شاہد سے بریک اپ کے بعد ان سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔

2007 میں دیے گئے انٹرویو میں کرینہ کپور نے شاہد کپور سے بریک اپ پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ میرے خیال میں شاہد کو فی الحال اپنے کیرئیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، شاہد کیلئے اس کا کیرئیر بہت اہم ہے، وہ اپنے کام سے پوری طرح محبت کرتاہےاور بعض اوقات سب چیزیں ایک ساتھ نہیں کی جاسکتیں‘۔

بریک کے بعد شاہد کی اداسی پر کرینہ کی گفتگو
دوران انٹرویو میزبان نے بریک اپ کے شاہد کے اداس اور تنہا دکھنے کا سوال کیا تھا جس پر کرینہ نے جواباًانکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ وہ ایسا نہیں لگتا ،خواتین اسٹار اس کے اردگرد ہوتی ہیں اور وہ ’ لیڈیز مین ‘ سا لگتا ہے اس لیے میں اس کے افسردہ اور تنہا ہونے پر کچھ نہیں کہہ سکتی ‘۔
دوران انٹرویو کرینہ نے شاہد سے بریک اپ کے بعد سامنے آنے والی قیاس آرائی پر بھی بات کی تھی،جس میں کہا جارہا تھا کہ کرینہ نے شاہد کو اس لیے چھوڑدیا کیونکہ شاہد کیرئیر میں تیزی سے کامیاب نہیں ہوا تھا ؟

کرینہ کا کہنا تھا کہ ’ ایسا نہیں ہے، میں ایک کامیاب عورت ہوں، مجھے کسی کامیاب مرد کی ضرورت نہیں ہے، اس کے برعکس میں ایسا شخص چاہتی ہوں جو مجھ سے محبت کرے ، مجھے سمجھے، اس کے علاوہ، شاہد میں کامیاب ہونے کی پوری صلاحیت ہے میں نے ساڑھے 4 سال شاہد سےمحبت کی ، اب بھی اس کیلئے دعاگو ہوں ‘۔
مزیدپڑھیں:پنجاب کے مختلف شہروں کیلئے 1500 الیکٹرک بسیں چلانے کے پروجیکٹ کی اصولی منظوری

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرینہ کپور سے بریک اپ بریک اپ کے شاہد سے نے شاہد کے بعد تھا کہ

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • یوزویندر سے طلاق کے بعد انڈسٹری کی ’سلمان خان‘ بننا چاہتی ہوں، دھناشری
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • جھانوی کپور کو کیسا شوہر چاہیئے؟ شیکھر پہاڑیا سے تعلقات کی چہ مگوئیاں جاری
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • کرینہ کپور کی ہم شکل؟ سارہ عمیر کے بیان پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
  • لوگ کہتے ہیں میں کرینہ کپور جیسی دکھائی دیتی ہوں، سارہ عمیر
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ