بی این پی کی کال ہر بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال، لک پاس کے مقام پر دھرنا جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کی جانب سے بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس پر آج صوبے کے بیشتر اضلاع میں کاروباری مراکز بند رہے۔
خصدار، قلات، مستونگ، حب، گوادر اور تربت میں کاروباری مراکز مکمل بند رہے جبکہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کاروباری سرگرمیاں جزوی طور پر معطل رہیں۔
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ لک پاس دھرنا: حکومتی وفد اور اختر مینگل کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
بی این پی نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے ایک بیان میں بتایا کہ وڈھ میں بیٹھے پُرامن مظاہرین پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے جس کے بعد صورت حال کشیدہ ہے۔
دوسری جانب تاجر برادری، وکلا تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں نے بی این پی کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بی این پی مینگل کا بلوچ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف وڈھ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر رواں دواں ہے، اور لک پاس کے مقام پر دھرنا گیارویں روز بھی جاری ہے۔
بی این پی کے دھرنے میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہے جبکہ حکومت نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے خندقیں کھود کر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
حکومت کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے دو دور ہوئے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سردار اختر مینگل سے مذاکرات سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایوان میں بیٹھی حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے کمیٹی تشکیل دی جس نے مذاکرات کیے۔
ان کے مطابق مذاکراتی نشستوں میں سردار اختر مینگل نے تین مطالبات سامنے رکھے جس میں پہلا مطالبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں بالخصوص ماہرنگ بلوچ کی رہائی شامل ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس معاملے پر صوبائی حکومت کا مؤقف واضح ہے کہ اگر عدالتیں انہیں ریلیف فراہم کرتی ہیں تو حکومت عدالتی احکامات کو ماننے کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان نیشنل پارٹی کا لکپاس کے قریب دھرنا جاری
ترجمان کے مطابق بی این پی کا دوسرا مطالبہ لانگ مارچ کو کوئٹہ لانے کا تھا جس پر صوبائی حکومت نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد سریاب روڈ شاہوانی اسٹیڈیم تک آنے کی اجازت دی جسے انہوں نے مسترد کیا اور ریڈ زون میں احتجاج پر بضد رہے۔ تاہم اس معاملے پر صوبائی حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق ہے لیکن احتجاج کہاں ہوگا اس کا فیصلہ ضلعی انتظامیہ کرے گی، اگر سردار اختر مینگل یا ان کے کارکنان حکومتی رٹ کو چیلنج کریں گے تو اس پر قانون حرکت میں آئےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی شٹر ڈاؤن ہڑتال عوامی حقوق لک پاس دھرنا جاری ماہرنگ بلوچ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی شٹر ڈاؤن ہڑتال عوامی حقوق لک پاس دھرنا جاری ماہرنگ بلوچ وی نیوز اختر مینگل بی این پی لک پاس
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت چلتن گھی مل سے متعلق اہم اجلاس چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر انڈسٹریز سردار کوہیار خان ڈومکی، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریشن کوئٹہ میونسپل کارپوریشن سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں معاہدے کی خلاف ورزی پر نجی کمپنی کی لیز ختم کردی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کمپنی نے غیر قانونی طور پر مل پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ قابضین کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں، جبکہ کمپنی پر حکومت بلوچستان کے 23 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب الادا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ چلتن گھی مل کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لیا جائے اور قابضین کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سرکاری املاک پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ سرکاری اثاثے عوام کی امانت ہیں۔ ان پر نجی قبضے کسی قیمت پر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ سابق نجی کمپنی کے تمام قبضہ شدہ حصے واگزار کرائے جائیں۔ واجب الادا رقم کی فوری وصولی یقینی بنائی جائے اور اس ضمن میں غفلت برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔