UrduPoint:
2025-11-04@04:27:09 GMT

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز چین کو دھمکی دی کہ اگر بیجنگ نے اپنے 34 فیصد جوابی ٹیرف واپس نہیں لیے، تو امریکہ میں درآمد کی جانے والی چینی اشیا پر 50 فیصد اضافی ٹیرف عائد کر دیے جائیں گے۔ ادھر اس کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں مسلسل ہلچل جاری ہے۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز بیجنگ نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے ٹرمپ کی طرف سے چینی درآمدات پر 34 فیصد ٹیکس لگانے پر اضافی محصولات عائد کر دی تھیں، جس سے امریکہ کافی ناراض ہے اور اس نے اس کے واپس نہ لینے پر مزید پچاس فیصد ٹیرف کی دھمکی دی ہے۔

پیر کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ٹرمپ نے چین کو اپنے جوابی اقدام کو ختم کرنے یا پھر 50 فیصد ٹیکس کا سامنا کرنے کے لیے منگل تک کا وقت دیا۔

(جاری ہے)

چین کا رد عمل

اس کے جواب میں امریکہ میں چینی سفارت خانے نے واشنگٹن پر "معاشی غنڈہ گردی" کا الزام لگایا اور کہا کہ بیجنگ "اپنے جائز حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے تحفظ کرے گا"۔

چین نے کہا کہ وہ اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے جوابی اقدامات اٹھائے گا۔ چینی وزارت تجارت نے منگل کے روز اپنے بیان میں مزید کہا، "چین کے خلاف ٹیرف میں اضافے کی امریکی دھمکی ایک غلطی پر دوسری غلطی ہے، جس نے ایک بار پھر سے امریکہ کی بلیک میلنگ فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر امریکہ اپنا یہی راستہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے تو چین بھی آخر تک لڑے گا۔

"

بیجنگ نے واشنگٹن پر اس حوالے سے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "چین پر دباؤ ڈالنا یا دھمکی دینا اس کے ساتھ بات چیت کا صحیح طریقہ نہیں ہے"۔

چینی سفارتخانے کے ترجمان لیو پینگیو نے ایک بیان میں کہا، "امریکہ کی بالادستی کا اقدام 'باہمی ٹیرف' کے نام پر دوسرے ممالک کے جائز مفادات کی قیمت پر اپنے مفادات کو پورا کرتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مقابلے میں 'امریکہ کو مقدم' رکھتا ہے۔

"

بیان میں مزید کہا گیا، "یہ یکطرفہ، تحفظ پسندی اور معاشی غنڈہ گردی کا ایک عام فہم اقدام ہے۔"

ٹرمپ کی ٹیرف پر بات چیت ختم کرنے کی دھمکی

دو عالمی طاقتوں کے درمیان یہ تازہ پیش رفت ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان کے بعد عالمی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے درمیان سامنے آئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اس سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں اور عالمی حریفوں کے درمیان تجارتی جنگ مزید گہری ہو سکتی ہے۔

پیر کے روز ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ "چین نے ٹیرف سے متعلق جو بات چیت کی درخواست کی تھی، اس سے متعلق تمام بات چیت اور ملاقاتوں کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔"

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت کی اجازت دینے کے لیے عالمی درآمدی محصولات کو روکنے پر غور نہیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ایسا نہیں دیکھ رہے ہیں۔

بہت سے ممالک ہیں جو ہمارے ساتھ سودے پر بات چیت کرنے آ رہے ہیں اور وہاں منصفانہ سودے ہونے والے ہیں۔"

ٹرمپ نے کہا کہ "میری تنبیہ کے باوجود کہ کوئی بھی ملک جو اضافی ٹیرف جاری کر کے امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا، اس پر فوری طور پر نئے اور کافی زیادہ ٹیرف لگائے جائیں گے، بیجنگ نے جوابی کارروائی کیوں کی۔"

ٹرمپ نے کہا کہ اگر چین نے منگل یعنی آٹھ اپریل تک جوابی ٹیرف کو واپس نہیں لیا تو اس کی برآمدات پر مزید پچاس فیصد کے اضافی محصولات عائد کیے جائیں گے۔

بیجنگ نے اس کے رد عمل میں کہا کہ چین پر دباؤ ڈالنا یا دھمکی دینے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو بیجنگ بھی جوابی اقدامات کرے گا۔

اگر امریکہ نے مزید محصولات عائد کیے، تو یہ چین کے مینوفیکچررز کے لیے ایک بڑے دھچکے کے طور پر آئیں گے، جن کے لیے امریکہ برآمدات کی اک کلیدی منڈی ہے۔

امریکہ کو چین کی سرفہرست برآمدات میں برقی مصنوعات اور دیگر مشینری، کمپیوٹر، فرنیچر، کھلونے، گاڑیاں اور آلات شامل ہیں، جبکہ چین کو امریکہ کی سب سے زیادہ برآمدات تیل کے بیج اور اناج کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز، مشینری اور دواسازی ہیں۔

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ بات چیت کے روز کے لیے

پڑھیں:

بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی

اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔

بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔ 

اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔

وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔

یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔

 امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعوی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم