شرجیل میمن کا ایم کیو ایم کو استعفے دے کر دوبارہ الیکشن لڑنے کا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے ایم کیو ایم قیادت کو استعفے دے کر دوبارہ الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا۔
کراچی سے جاری بیان میں شرجیل میمن نے ایم کیو ایم قیادت کو جواب دیا اور کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں افراتفری پھیلے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا ایک گروپ کراچی میں نفرتیں پھیلا رہا ہے، یہی لوگ افراتفری چاہتے ہیں، ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔
سندھ کے سینئر وزیر نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کو جو بات کرنی ہے وہ عوامی مینڈیٹ پرکرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنے حلقے اور ایم کیو ایم رہنما اپنے حلقے سے استعفیٰ دیں، دوبارہ انتخابات لڑتے ہیں دیکھتے ہیں کس کے پاس مینڈیٹ ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ایم کیو ایم کہا کہ
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔