Express News:
2025-07-26@23:03:41 GMT

طوفان کے بعد، ایک نئے سورج کی کرن

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

سورج کے سفر کا دستور ہے کہ وہ ہر شام افق کے پیچھے روپوش ہوجاتا ہے، مگر اس کی روشنی کبھی دم نہیں توڑتی۔ کچھ یہی حال اُن قوموں کا ہوتا ہے جنہیں ہر روز کسی نہ کسی طوفان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، مگر وہ حوصلے کی شمع بجھنے نہیں دیتیں۔

ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ سورج کی کرنوں نے ابھی افق کو چھوا بھی نہ تھا کہ سمندر کی شوریدہ لہروں نے اُس کشتی کو نگل لیا جس پر ہم نے ’’معاشی استحکام‘‘ کا علم لہرایا تھا۔ وہ کشتی، جو کئی طوفانوں کا سینہ چیر کر امید کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی، اچانک ایک نئے بگولے میں گھر گئی۔ وہ کشتی، جس کا نام ہم نے بڑے فخر سے ’’معاشی استحکام‘‘ رکھا تھا، اب کسی مجروح شاعر کے خواب کی مانند، ادھوری، لرزاں اور بے قرار دکھائی دے رہی ہے۔

دراصل آسمان سے برستے بادل کی گرج میں ایک فیصلہ تھا، ایک ضرب تھی، ایک دھچکا تھا، 29 فیصد ٹیرف کا دھچکا۔ یہ وہ گراں بوجھ تھا جو امریکا نے ہماری رگِ تجارت پر رکھ دیا اور ایک بار پھر ہم لہروں کے رحم و کرم پر تھے۔

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جیسے شام کی گود میں چھپا ہوا سورج اگلی صبح نئی اُمنگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ تو کیا یہ 29 فیصد کا طوفان ہماری معیشت کی کشتی کو مکمل غرق کردے گا؟ یا پھر اس تاریکی کے پردے میں چھپا کوئی نیا سویرا ہمیں بانہوں میں لے لے گا؟ یقیناً ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی بہت سے ورق پلٹنے باقی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں، گویا وقت کا زلزلہ ہوں، اچانک آتی ہیں، زمین ہلاتی ہیں اور نقشہ بدل دیتی ہیں۔ کبھی شمالی کوریا کےلیے آگ و غضب، کبھی چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور اب ایک ہی ضرب سے درجنوں ملکوں کی معاشی بنیادیں ہلا دی گئی ہیں۔ پاکستان بھی اُن سو ممالک میں شامل ہے جن پر واشنگٹن کی خشمگیں نظر پڑی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آندھی کو اپنی مرضی کا رخ دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟

وزیر خزانہ اورنگزیب رمدے نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ’’یہ مسئلہ نہیں، موقع ہے‘‘۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان کیا صرف الفاظ کی گونج ہے یا اس میں واقعی تدبیر کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے؟ ٹیکسٹائل جو ہماری معیشت کی شہ رَگ ہے، اب امریکی منڈی میں دباؤ کا شکار ہے۔ پچھلے ہفتے 10 فیصد ٹیرف کا بوجھ تھا، جو اب 29 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ ہماری برآمدات پر کیا بیتے گی، بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم اس آزمائش کو کس شعور، کس تدبر اور کس حکمتِ عملی سے عبور کرتے ہیں؟

امریکا جو کبھی ہماری برآمدات کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، اب ہمیں وہ نرخ دے رہا ہے جو مہنگائی کے سائے میں چھپی ہوئی بے قدری کی تصویر ہے۔ ہم امریکا کو دھاگہ، کپڑا، چمڑے کی مہک اور دستکاری کی روح بیچتے ہیں اور وہ ہمیں مشینری، دوا اور علم کا ہنر دیتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ کبھی محبت کا نہیں رہا، ہمیشہ مصلحت کی لغت میں لپٹا رہا۔ نائن الیون کے بعد ہم ایک ناگزیر ساتھی تھے، اور ڈالر کی نہریں ہماری معیشت کے کھیتوں کو سیراب کرتی تھیں، لیکن جیسے ہی جغرافیائی اہمیت کا رنگ مدھم ہوا، ویسے ہی وہ نہریں سوکھ گئیں۔ جیسے ہی افغانستان کی راکھ سرد پڑی تو ہمارے مفادات پر بھی برف جم گئی۔ اب ٹرمپ کا ٹیرف اسی برف کی ایک اور تہہ ہے۔

یاد دہانی ہو کہ مفادات کی دنیا میں دوستیاں نہیں ہوتیں، صرف معاہدے ہوتے ہیں، مگر ایک دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی توازن ہمارے حق میں ہے۔ ہم انہیں زیادہ دیتے ہیں، وہ ہمیں کم۔ یہ توازن صدر ٹرمپ کی طبیعت پر گراں گزرا۔ اب اُدھر سوچ یہ ہے کہ ہماری کشتی ہچکولے کھائے، تاکہ اُن کی ناؤ سنبھل جائے۔ تو کیا ہم اس شطرنجی کھیل میں مات کھا جائیں گے یا پھر ہماری چال کسی شہ مات کا اشارہ بنے گی؟

وزیر خزانہ کی زبان پر امید کی لَو تو ہے، مگر اس کے عقب میں کیا واقعی عمل کا چراغ بھی روشن ہے؟ وزیر خزانہ نے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، ان میں وزراء، ماہرین اور صنعتکار شامل ہیں۔ کیا یہ فقط کاغذی قلعے ہیں؟ یا ان کی دیواروں میں تدبر کا فولاد بھی بھرا گیا ہے؟ یقیناً فیصلے وقت مانگتے ہیں لیکن وقت ہمیں مہلت کم دیتا ہے۔

نجکاری کے 24 ادارے، قیمتوں پر نگاہ رکھنے کے نئے نظام اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات، یہ سب وہ پُل ہیں جو ہمیں طوفان کے پار لے جا سکتے ہیں۔ یہ سب سننے میں خواب معلوم ہوتے ہیں لیکن خواب جب بصیرت اور جرات سے جُڑ جائیں تو تعبیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے بھی نجکاری کی آڑ میں ادارے بیچ کر قوم کو فقط خواب ہی دیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نیا سلسلہ زمین پر پھول کھلائے گا یا پھر ایک اور طوفان کی تمہید بنے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بارش کی دعا کریں اور سیلاب میں گھر جائیں۔

ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن روانہ ہونے کو ہے۔ کیا یہ وفد فقط گزارشات کی پوٹلی لے کر جائے گا؟ یا کوئی ایسا منصوبہ جس میں دوطرفہ مفاد بھی چمکتا ہو؟ اگر ہم امریکی پالیسی سازوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہماری اقتصادی خودکفالت دراصل ان کی جغرافیائی حکمتِ عملی کو مضبوط کر سکتی ہے، تو شاید اعصاب کی یہ جنگ ختم ہوجائے۔

چین کے ساتھ سی پیک کی شراکت ہو یا وسط ایشیاء تک رسائی کے خواب ہوں، ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے امریکا کو بھی روشنی دکھائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اپنا چراغ جلا سکیں۔ بصورتِ دیگر ہم فقط ایک مہنگا ’’بیچلر‘‘ بن کر رہ جائیں گے، جس کی رخصتی کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔

وقت کے طوفان آتے ہیں، زلزلے بستیاں لرزا دیتے ہیں، مگر انسان کی جستجو، اس کی ہمت اور اس کی امید باقی رہتی ہے۔ ہم نے 2008 کا مالیاتی بحران دیکھا، 2020 کا کورونا کا سونامی بھی جھیلا اور ہر بار ہم نے کشتی کو بچالیا۔ اب یہ ٹیرف ایک نیا امتحان ہے۔ کیا ہم اس میں سرخرو ہوں گے؟

جواب شاید ایک خاموش ’’ہاں‘‘ ہے بشرطیکہ ہم تدبیر سے کام لیں۔ یقیناً وزیر خزانہ کے بیان میں محض الفاظ نہیں ایک لائحہ عمل کا نقشہ بھی شامل تھا۔ نجکاری، نگرانی اور مذاکرات۔ یہ تین دیے اگر جلیں تو شاید اندھیرا چھٹ جائے۔

اس لیے مایوس نہ ہوں، سورج پھر طلوع ہو گا، روشنی پھر پھیل جائے گی اور کشتی پھر موجوں کو چیرتی آگے بڑھے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم امید کا بادبان ہرگز نہ اتاریں اور دعا کے ساتھ تدبیر کا دامن بھی تھامے رکھیں۔ کہتے ہیں سمندر کی گہرائی میں ہیرے چھپے ہوتے ہیں۔ شاید یہی طوفان ہمیں وہ نایاب ہیرا عطا کرجائے جو برسوں سے ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یہ ہے کہ کے ساتھ

پڑھیں:

سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)

مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

اسلام ٹائمز۔ مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آغا راحت حسین الحسینی نے کہا کہ ہماری ناکامی کی اصل وجہ اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا ہے، ہم ہر کسی نے اپنا تین فٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے، اگر ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائے تو پورے گلگت بلتستان بلکہ پاکستان میں حکومتیں بنانے او گرانے کی طاقت ہم میں موجود ہیں۔ میں تمام علماء سے کہتا ہوں کہ ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا، جہاں ہم اپنے مسائل اور حکمت عملی کےلئے سب ملکر بیٹھ سکے۔

انہوں نے کہاکہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے ریاست اور ریاستی ادارے بے بس نظر آ رہے ہیں، حکومت اور اداروں کو اپنا رٹ مضبوط کرنا ہو گا، گلگت بلتستان کو دوبارہ دہشت گردی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یہ خطہ کسی بھی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 1988ء سے لے کر اب تک ہمارے شہداء کے قاتلوں کو سزا تک نہیں دی گئی ہے، جو کہ ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہے، علاقے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مجرموں کو سزا دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کانفرنس سے علامہ شیخ اصغر، انجمن امامیہ کے نائب صدر شیخ زاہد حسین زاہدی، مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس علما مکتب اہلبیت پاکستان علامہ محمد اصغر عسکری، مرکزی سیکرٹری روابط مجلس علما مکتب اہلبت علامہ عیسی امینی، صوبائی صدر مجلس علماء مکتب اہلبیت بلتستان کے شیخ کریمی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں سزائیں دینے والے خوفزدہ لوگوں سے کوئی ڈر نہیں ہے، علیمہ خان
  • ملک میں وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے، سعید غنی
  • ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے،سعید غنی
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد کوچ مائیک ہیسن کا سوشل میڈیا پر اہم بیان
  • سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں: شکیل خان
  • سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)
  • اب پارٹی کی اندر کی باتیں باہر نہیں آئیں گی، بیرسٹر گوہر
  • تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ہمیں ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے؛ محسن نقوی
  • کرکٹ کی بہتری کے لیے ٹھوس اور مؤثر فیصلے کرنا ہوں گے: محسن نقوی