Express News:
2025-11-04@18:04:37 GMT

طوفان کے بعد، ایک نئے سورج کی کرن

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

سورج کے سفر کا دستور ہے کہ وہ ہر شام افق کے پیچھے روپوش ہوجاتا ہے، مگر اس کی روشنی کبھی دم نہیں توڑتی۔ کچھ یہی حال اُن قوموں کا ہوتا ہے جنہیں ہر روز کسی نہ کسی طوفان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، مگر وہ حوصلے کی شمع بجھنے نہیں دیتیں۔

ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ سورج کی کرنوں نے ابھی افق کو چھوا بھی نہ تھا کہ سمندر کی شوریدہ لہروں نے اُس کشتی کو نگل لیا جس پر ہم نے ’’معاشی استحکام‘‘ کا علم لہرایا تھا۔ وہ کشتی، جو کئی طوفانوں کا سینہ چیر کر امید کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی، اچانک ایک نئے بگولے میں گھر گئی۔ وہ کشتی، جس کا نام ہم نے بڑے فخر سے ’’معاشی استحکام‘‘ رکھا تھا، اب کسی مجروح شاعر کے خواب کی مانند، ادھوری، لرزاں اور بے قرار دکھائی دے رہی ہے۔

دراصل آسمان سے برستے بادل کی گرج میں ایک فیصلہ تھا، ایک ضرب تھی، ایک دھچکا تھا، 29 فیصد ٹیرف کا دھچکا۔ یہ وہ گراں بوجھ تھا جو امریکا نے ہماری رگِ تجارت پر رکھ دیا اور ایک بار پھر ہم لہروں کے رحم و کرم پر تھے۔

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جیسے شام کی گود میں چھپا ہوا سورج اگلی صبح نئی اُمنگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ تو کیا یہ 29 فیصد کا طوفان ہماری معیشت کی کشتی کو مکمل غرق کردے گا؟ یا پھر اس تاریکی کے پردے میں چھپا کوئی نیا سویرا ہمیں بانہوں میں لے لے گا؟ یقیناً ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی بہت سے ورق پلٹنے باقی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں، گویا وقت کا زلزلہ ہوں، اچانک آتی ہیں، زمین ہلاتی ہیں اور نقشہ بدل دیتی ہیں۔ کبھی شمالی کوریا کےلیے آگ و غضب، کبھی چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور اب ایک ہی ضرب سے درجنوں ملکوں کی معاشی بنیادیں ہلا دی گئی ہیں۔ پاکستان بھی اُن سو ممالک میں شامل ہے جن پر واشنگٹن کی خشمگیں نظر پڑی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آندھی کو اپنی مرضی کا رخ دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟

وزیر خزانہ اورنگزیب رمدے نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ’’یہ مسئلہ نہیں، موقع ہے‘‘۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان کیا صرف الفاظ کی گونج ہے یا اس میں واقعی تدبیر کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے؟ ٹیکسٹائل جو ہماری معیشت کی شہ رَگ ہے، اب امریکی منڈی میں دباؤ کا شکار ہے۔ پچھلے ہفتے 10 فیصد ٹیرف کا بوجھ تھا، جو اب 29 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ ہماری برآمدات پر کیا بیتے گی، بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم اس آزمائش کو کس شعور، کس تدبر اور کس حکمتِ عملی سے عبور کرتے ہیں؟

امریکا جو کبھی ہماری برآمدات کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، اب ہمیں وہ نرخ دے رہا ہے جو مہنگائی کے سائے میں چھپی ہوئی بے قدری کی تصویر ہے۔ ہم امریکا کو دھاگہ، کپڑا، چمڑے کی مہک اور دستکاری کی روح بیچتے ہیں اور وہ ہمیں مشینری، دوا اور علم کا ہنر دیتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ کبھی محبت کا نہیں رہا، ہمیشہ مصلحت کی لغت میں لپٹا رہا۔ نائن الیون کے بعد ہم ایک ناگزیر ساتھی تھے، اور ڈالر کی نہریں ہماری معیشت کے کھیتوں کو سیراب کرتی تھیں، لیکن جیسے ہی جغرافیائی اہمیت کا رنگ مدھم ہوا، ویسے ہی وہ نہریں سوکھ گئیں۔ جیسے ہی افغانستان کی راکھ سرد پڑی تو ہمارے مفادات پر بھی برف جم گئی۔ اب ٹرمپ کا ٹیرف اسی برف کی ایک اور تہہ ہے۔

یاد دہانی ہو کہ مفادات کی دنیا میں دوستیاں نہیں ہوتیں، صرف معاہدے ہوتے ہیں، مگر ایک دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی توازن ہمارے حق میں ہے۔ ہم انہیں زیادہ دیتے ہیں، وہ ہمیں کم۔ یہ توازن صدر ٹرمپ کی طبیعت پر گراں گزرا۔ اب اُدھر سوچ یہ ہے کہ ہماری کشتی ہچکولے کھائے، تاکہ اُن کی ناؤ سنبھل جائے۔ تو کیا ہم اس شطرنجی کھیل میں مات کھا جائیں گے یا پھر ہماری چال کسی شہ مات کا اشارہ بنے گی؟

وزیر خزانہ کی زبان پر امید کی لَو تو ہے، مگر اس کے عقب میں کیا واقعی عمل کا چراغ بھی روشن ہے؟ وزیر خزانہ نے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، ان میں وزراء، ماہرین اور صنعتکار شامل ہیں۔ کیا یہ فقط کاغذی قلعے ہیں؟ یا ان کی دیواروں میں تدبر کا فولاد بھی بھرا گیا ہے؟ یقیناً فیصلے وقت مانگتے ہیں لیکن وقت ہمیں مہلت کم دیتا ہے۔

نجکاری کے 24 ادارے، قیمتوں پر نگاہ رکھنے کے نئے نظام اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات، یہ سب وہ پُل ہیں جو ہمیں طوفان کے پار لے جا سکتے ہیں۔ یہ سب سننے میں خواب معلوم ہوتے ہیں لیکن خواب جب بصیرت اور جرات سے جُڑ جائیں تو تعبیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے بھی نجکاری کی آڑ میں ادارے بیچ کر قوم کو فقط خواب ہی دیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نیا سلسلہ زمین پر پھول کھلائے گا یا پھر ایک اور طوفان کی تمہید بنے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بارش کی دعا کریں اور سیلاب میں گھر جائیں۔

ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن روانہ ہونے کو ہے۔ کیا یہ وفد فقط گزارشات کی پوٹلی لے کر جائے گا؟ یا کوئی ایسا منصوبہ جس میں دوطرفہ مفاد بھی چمکتا ہو؟ اگر ہم امریکی پالیسی سازوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہماری اقتصادی خودکفالت دراصل ان کی جغرافیائی حکمتِ عملی کو مضبوط کر سکتی ہے، تو شاید اعصاب کی یہ جنگ ختم ہوجائے۔

چین کے ساتھ سی پیک کی شراکت ہو یا وسط ایشیاء تک رسائی کے خواب ہوں، ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے امریکا کو بھی روشنی دکھائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اپنا چراغ جلا سکیں۔ بصورتِ دیگر ہم فقط ایک مہنگا ’’بیچلر‘‘ بن کر رہ جائیں گے، جس کی رخصتی کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔

وقت کے طوفان آتے ہیں، زلزلے بستیاں لرزا دیتے ہیں، مگر انسان کی جستجو، اس کی ہمت اور اس کی امید باقی رہتی ہے۔ ہم نے 2008 کا مالیاتی بحران دیکھا، 2020 کا کورونا کا سونامی بھی جھیلا اور ہر بار ہم نے کشتی کو بچالیا۔ اب یہ ٹیرف ایک نیا امتحان ہے۔ کیا ہم اس میں سرخرو ہوں گے؟

جواب شاید ایک خاموش ’’ہاں‘‘ ہے بشرطیکہ ہم تدبیر سے کام لیں۔ یقیناً وزیر خزانہ کے بیان میں محض الفاظ نہیں ایک لائحہ عمل کا نقشہ بھی شامل تھا۔ نجکاری، نگرانی اور مذاکرات۔ یہ تین دیے اگر جلیں تو شاید اندھیرا چھٹ جائے۔

اس لیے مایوس نہ ہوں، سورج پھر طلوع ہو گا، روشنی پھر پھیل جائے گی اور کشتی پھر موجوں کو چیرتی آگے بڑھے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم امید کا بادبان ہرگز نہ اتاریں اور دعا کے ساتھ تدبیر کا دامن بھی تھامے رکھیں۔ کہتے ہیں سمندر کی گہرائی میں ہیرے چھپے ہوتے ہیں۔ شاید یہی طوفان ہمیں وہ نایاب ہیرا عطا کرجائے جو برسوں سے ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یہ ہے کہ کے ساتھ

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
  • ’سب جھوٹ تھا اور ہمیں دھوکا دیا گیا‘، مادھوری ڈکشت کے شو نے لوگوں کو مایوس کیوں کردیا؟
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • 27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
  • 27ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، رانا ثناء
  • پاکستان کے علماء کا ضمیر خریدنا آسان کام نہیں: طاہر اشرفی
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان