پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) پاکستان کی جانب سے 31 مارچ کی دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے ملک میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور وطن واپسی کی تازہ مہم میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہزاروں پناہ گزینوں کو پکڑ کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے کہا تھا کہ وہ مارچ کے اختتام تک اپنے ملک واپس چلے جائیں، ورنہ بصورت دیگر مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پناہ گزینوں نے سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مقیم آٹھ لاکھ افغانوں کے پاس ریزیڈنسی اجازت نامے ( اے سی سی) کارڈز تھے، جنہیں منسوخ کیا جا چکا ہے۔
(جاری ہے)
منگل کے روز اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اطلاع دی کہ یکم اپریل سے کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن
پاکستانی حکومت کے ایک اہلکار نے بھی اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "ہماری مہم زور پکڑ رہی ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے۔"
طالبان حکومت کا رد عملادھر پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت نے منگل کے روز ہی پاکستان کی جانب سے افغانوں کو ملک سے نکالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے "تشدد" کی مذمت کی۔
طالبان کی وزارت برائے مہاجرین نے وطن واپسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے مشترکہ معاہدے پر زور دیتے ہوئے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا: "ہمسایہ ممالک کی طرف سے ان (افغانوں) کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔"
طالبان کی وزارت نے مزید کہا، "انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تمام پناہ گزینوں کو اپنی دولت، سامان اور گھریلو ساز و سامان اپنے ساتھ اپنے ملک لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔"طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کا مزید کہنا تھا، "کسی کو بھی مہاجرین کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔"
پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف
لاکھوں افغانوں کے رہائشی کارڈ منسوخانٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اتوار اور پیر کو اوسطاً 4,000 افغانوں نے پاکستان سے سرحد عبور کی، جو کہ مارچ کے مہینے میں یومیہ اوسط صرف 77 سے کہیں زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں رہتے ہیں، جس میں سے تقریبا آٹھ لاکھ کے ریزیڈنسی کارڈ (اے سی سی) اپریل میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔
ادارے کے مطابق تقریبا 13 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس یہ رہائشی اجازت نامے اب بھی آئندہ 30 جون تک موجود ہیں، کیونکہ وہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
حالیہ دنوں میں سرحد پار کرنے والے افغانوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ اپنا سارا سامان یا رقم لے جانے کے قابل نہیں تھے اور اسے چھوڑ کر پاکستان سے واپس آ گئے، جبکہ بعض دیگر کو پکڑ کر براہ راست سرحد پر لے جایا گیا۔
’غیرقانونی تارکین وطن‘ 31 مارچ تک ملک چھوڑ دیں، حکومت پاکستان
انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویشپاکستان نے 2023 میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کیا تھا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ مہم اس کوشش کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم تارکین وطن کو روکنا ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اب بھی تیس لاکھ افغان ملک میں باقی ہیں۔افغانستان ہیومن رائٹس واچ کی فریشتہ عباسی نے کہا، "پاکستان لوگوں کو وہاں واپس نہ بھیجنے کے اپنے ہی بین الاقوامی عہد کو ترک کر رہا ہے، جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔"
’پاکستان تمام افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے‘
کابل اور اسلام آباد میں تنازعگزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک عسکریت پسند گروپ ہے، جو سن 2007 سے ہی پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتا رہا ہے۔طالبان حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد سے پاکستان میں افغانوں کی مبینہ گرفتاریوں کی اطلاعات کے درمیان افغانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں افغان باشندے زیادہ انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات
ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کی مہم کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں کئی دہائیوں کے مسلح تصادم کے دوران اور 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرحد عبور کی تھی۔
ص ز/ ر ب (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پناہ گزینوں ملک بدری کا اسلام آباد لاکھ افغان طالبان کی میں افغان کے دوران کے بعد کے لیے کیا جا کو ملک رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستان سے غیر ملکی باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران ستمبر 2024ء سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیجا جا چکا ہے۔ ان افغان شہریوں میں تقریباﹰ نصف تعداد خواتین اور مختلف عمر کی لڑکیوں کی تھی۔
اہم بات تاہم یہ ہے کہ انہی افغان باشندوں میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسی کم عمر طالبات بھی شامل تھیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں، مگر اب ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد واپس اپنے وطن میں ان کے لیے طالبان حکومت کی سخت پالیسیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
ان ہزارہا افغان لڑکیوں کو ان کی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان سے ملک بدری کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک ایسے وقت پر روکنا پڑا، جب ان کے امتحانات بھی شروع ہونے والے تھے۔
(جاری ہے)
خاص طور پر یکم اپریل سے شروع کی گئی بے دخلی مہم کے دوران ایسے زیادہ تر افغان شہریوں کو پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ سےلا کر صوبے خیبر پختونخوا میں طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا۔
پنجاب اور سندھ سے افغان باشندوں کی بے دخلیپنجاب اور سندھ میں رہائش پذیر افغان مہاجر خاندانوں کی زیادہ تر بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بے دخلی مہم کی سست روی کی وجہ سے تاحال صرف رضاکارانہ طور پر ہی کچھ افغان کنبے واپس گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق پشاور سے واپس افغانستان جانے والی طالبات کی تعداد تقریباﹰ دو فیصد بنتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف افغان بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں، وہیں پر بعض افغان ماہرین نے اپنے تعلیمی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔عالمی برادری افغان باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز رفتار بنائے، اسلام آباد کا مطالبہ
پشاور میں اسی نوعیت کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر نور افغان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''خیبر پختونخوا میں 50 فیصد افغان بچیاں نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔
لیکن اب چونکہ نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا ہے، تو ان طالبات کے والدین غیر یقینی صورتحال کے باعث اگلے تعلیمی سال کے لیے ان کے داخلے نہیں کروا رہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم کے لیے والدین بھاری فیسیں تو ادا کر دیں مگر پھر انہیں مجبوراﹰ پاکستان سے رخصت ہونا پڑ جائے۔‘‘ پاکستان میں ’پچاس فیصد افغان طالبات کے نئے تعلیمی داخلے نہ ہو سکے‘ڈاکٹر نور افغان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے افغان باشندے اپنے اہل خانہ کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے سبب پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سہولیات جو افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ڈاکٹر نور افغان، جو خود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اسکولوں میں داخلہ مہم کے دوران 50 فیصد افغان طالبات کے داخلے نہ ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ملک بدری کی موجودہ مہم سے افغان طالبات 100 فیصد متاثر ہوئی ہیں۔ ہزارہا لڑکیاں واپس افغانستان جا چکی ہیں، جبکہ جو ابھی تک پاکستان میں ہیں، وہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔
مزید یہ کہ پاکستان میں مثلاﹰ نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم افغان لڑکیاں اگر اپنی مائیگریشن بھی کرا لیں، تو یہ امکان بہت کم ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز
ڈاکٹڑ نور افغان کے بقول، '' پاکستانی پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم افغان طالبات بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔
ایسی لڑکیوں کے والدین یا کچھ اہل خانہ زیادہ تر یورپی ممالک یا امریکہ میں رہتے ہیں اور وہیں سے وہ انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقوم بھیجتے ہیں۔ ایسے بعض والدین تو بیرون پاکستان سے براہ راست ہی متعلقہ میڈیکل، انجینئرنگ یا آئی ٹی کالجوں میں ان بچیوں کی فیسیں جمع کرا دیتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیںپشاور میں صوبائی حکومت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمارکےمطابق صوبے کے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں مجموعی طور پر تین لاکھ افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن
صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام کالجوں میں بھی افغان طلبا و طالبات کے لیے دو دو نشستیں مختص کی تھیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کےمطابق اس وقت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 760 نوجوان افغان شہری بطور طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ وفاقی حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے روانگی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی پشاور حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا وطالبات کی مکمل تفصیلات طلب کر لی تھیں۔
خیبر پختونخوا کے تعلیمی محکمے کی پالیسیپاکستان سے اب تک زیادہ تر افغان باشندوں کو پنجاب اور سندھ سے بے دخل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاحال حکومتی پالیسی غیر واضح ہے۔ اس پس منظر میں صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے صوبے میں داخلہ مہم جاری ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کے حوالے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم کے دوران صرف پشاور سے تقریباﹰ 200 طالبات واپس جا چکی ہیں، تاہم پورے صوبے کی سطح پر یہ ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں۔‘‘ افغان طالبات کی پریشانی میں اضافہپاکستان سے افغان شہریوں کی ملک بدری سے خواتین بالخصوص طالبات شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ایسی طالبات کے میل ملاپ والے سماجی حلقے بھی مقامی ہی ہیں۔پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی افغان طالبہ مسکا احمدزئی (نام دانستہ طور پر فرضی لکھا جا رہا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پیدائش پشاور ہی کی ہے۔ میں یہیں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی افغانستان نہیں گئی۔ نہ ہی جانے کا ارادہ تھا یا ہے۔ لیکن اب دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔
‘‘پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع
اس افغان طالبہ نے کہا، ''مجھے اپنے والدین کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے میں اپنی تعلیم کی قربانی دوں گی۔ اس لیے کہ جو کچھ میں خیبر پختونخوا میں پڑھ رہی ہوں، اس کا سلسلہ افغانستان میں جاری رکھنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔‘‘
مسکا احمدزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ایک بہن میڈیکل کی طالبہ ہے، جو ابھی تھرڈ ایئر میں ہے۔
جب وہ افغانستان جائے گی، تو اپنی ڈگری وہاں بھلا کیسے مکمل کر سکے گی۔ ہم سب کو یہ پریشانی اس وقت سے لگی ہے، جب سے پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بے یقینی کی صورت حال ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ چند ایک کا نہیں بلکہ لاکھوں افغان لڑکیوں اور بچیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہانسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی حکومت سے ملک میں زیر تعلیم افغان طالبات کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ان طالبات کو ان کے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف
دوسری جانب افغان حکومت کے بعض حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایسے بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کی پالیسی کے مطابق افغانستان میں بچیاں صرف چھٹی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اس سے آگے ان کی تعلیم پر پابندی ہے۔
ادارت: مقبول ملک