UrduPoint:
2025-11-04@04:27:37 GMT

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) پاکستان کی جانب سے 31 مارچ کی دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے ملک میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور وطن واپسی کی تازہ مہم میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہزاروں پناہ گزینوں کو پکڑ کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے کہا تھا کہ وہ مارچ کے اختتام تک اپنے ملک واپس چلے جائیں، ورنہ بصورت دیگر مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پناہ گزینوں نے سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مقیم آٹھ لاکھ افغانوں کے پاس ریزیڈنسی اجازت نامے ( اے سی سی) کارڈز تھے، جنہیں منسوخ کیا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اطلاع دی کہ یکم اپریل سے کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

پاکستانی حکومت کے ایک اہلکار نے بھی اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "ہماری مہم زور پکڑ رہی ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے۔"

طالبان حکومت کا رد عمل

ادھر پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت نے منگل کے روز ہی پاکستان کی جانب سے افغانوں کو ملک سے نکالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے "تشدد" کی مذمت کی۔

طالبان کی وزارت برائے مہاجرین نے وطن واپسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے مشترکہ معاہدے پر زور دیتے ہوئے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا: "ہمسایہ ممالک کی طرف سے ان (افغانوں) کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔"

طالبان کی وزارت نے مزید کہا، "انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تمام پناہ گزینوں کو اپنی دولت، سامان اور گھریلو ساز و سامان اپنے ساتھ اپنے ملک لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔"

طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کا مزید کہنا تھا، "کسی کو بھی مہاجرین کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔"

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

لاکھوں افغانوں کے رہائشی کارڈ منسوخ

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اتوار اور پیر کو اوسطاً 4,000 افغانوں نے پاکستان سے سرحد عبور کی، جو کہ مارچ کے مہینے میں یومیہ اوسط صرف 77 سے کہیں زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں رہتے ہیں، جس میں سے تقریبا آٹھ لاکھ کے ریزیڈنسی کارڈ (اے سی سی) اپریل میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔

ادارے کے مطابق تقریبا 13 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس یہ رہائشی اجازت نامے اب بھی آئندہ 30 جون تک موجود ہیں، کیونکہ وہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔

حالیہ دنوں میں سرحد پار کرنے والے افغانوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ اپنا سارا سامان یا رقم لے جانے کے قابل نہیں تھے اور اسے چھوڑ کر پاکستان سے واپس آ گئے، جبکہ بعض دیگر کو پکڑ کر براہ راست سرحد پر لے جایا گیا۔

’غیرقانونی تارکین وطن‘ 31 مارچ تک ملک چھوڑ دیں، حکومت پاکستان

انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویش

پاکستان نے 2023 میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کیا تھا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ مہم اس کوشش کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم تارکین وطن کو روکنا ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اب بھی تیس لاکھ افغان ملک میں باقی ہیں۔

افغانستان ہیومن رائٹس واچ کی فریشتہ عباسی نے کہا، "پاکستان لوگوں کو وہاں واپس نہ بھیجنے کے اپنے ہی بین الاقوامی عہد کو ترک کر رہا ہے، جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔"

’پاکستان تمام افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے‘

کابل اور اسلام آباد میں تنازع

گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک عسکریت پسند گروپ ہے، جو سن 2007 سے ہی پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتا رہا ہے۔

طالبان حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد سے پاکستان میں افغانوں کی مبینہ گرفتاریوں کی اطلاعات کے درمیان افغانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں افغان باشندے زیادہ انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات

ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کی مہم کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں کئی دہائیوں کے مسلح تصادم کے دوران اور 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرحد عبور کی تھی۔

ص ز/ ر ب (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پناہ گزینوں ملک بدری کا اسلام آباد لاکھ افغان طالبان کی میں افغان کے دوران کے بعد کے لیے کیا جا کو ملک رہا ہے

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں تو اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔اسی لئے پاکستان نے مزاکرات میں یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ آفغان طالبان کے امیر پاکستان میں حملوں کے خلاف فتویٰ دیں۔دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک پریشر tool کے طور پر استعمال کر کے بین الاقوامی منظر نامے پر زیر بحث رہ کر پاکستان اسلامی ممالک چین اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اسکا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کاروائیاں روکنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں لہذا ان کی اس سلسلے میں مطلوبہ امداد فراہم کی جائے اس طرح سے چین جس کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس کا ایک صوبہ بھی افغان علاقے سے دراندازوں کی کاروائیوں کا شکار ہے اور اسلامی ممالک امریکہ اور یورپ سے معاشی فوائد حاصل کئے جائیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغان طالبان انڈیا سے معاشی فوائد حاصل کرکے اس کی پراکسی کے طور پر یا کھلی جھڑپوں کے ذریعے انڈیا کو دفاعی سطح پر فائدہ پہنچا رہا ہے۔

کیونکہ اس وقت انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک میں فوجی مشقیں شروع کی ہوئی ہیں اور انکے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سیاسی ذمہ داراں پاکستان کو سبق سکھانے اور آپریشن سیندور کے جاری رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لہذا اس طرح سے دو سرحدی محاذوں اور اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیذریعے پاکستان کو الجھا کر بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہے گا۔اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اس کے مطابق مناسب وقت پر کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی افغان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان وارئیر گروہ کی ہر طرح کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو گزشتہ چار سالوں سے ان کی طرف سے مسلح شدت پسندی کا سامنا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ’ویندا فلباب براؤن‘ کی رائے ہے کہ طالبان حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی طالبان حکومت کے لئے نظریاتی یا عسکری خطرہ نہیں تب تک افغان طالبان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔

دوسری طرف سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان میں موجود مقیم غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اٹھارہ روز سے جاری تجارتی بندش کو دباوء برھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور طالبان رجیم کو کھلم کھلا غیر جمہوری قرار دے کر اس کے مخالفین کو تھپکی دی جا رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اور سفارتی و فوجی دباو اسلامی ممالک کی ناراضگی کا خطرہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔بہر صورت پاکستان کو اس پیچیدہ صورت حال سے احسن طریقے سے نمٹنے کیلئے امریکہ'چین 'سعودی عرب ایران' ترکیہ قطر سمیت اپنے تمام دوست اور برادر اسلامی ممالک سے مشاورت اور تعاون کے ساتھ ایسی متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دشمن ممالک کے ناپاک عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ
  • چمن بارڈر سے ایک روزمیں 10 ہزارسے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا
  • ایک روز کے دوران صرف چمن بارڈر سے 10 ہزار افغان مہاجرین واپس اپنے وطن روانہ
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • غیر قانونی مقیم افغانوں کی بے دخلی کیلیے طورخم سرحد جزوی بحال، تجارت اور عام آمدورفت بدستور معطل
  • افغانوں کی وطن واپسی کیلئے طورخم سرحدی گزرگاہ کھول دی گئی