UrduPoint:
2025-06-09@14:59:40 GMT

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) پاکستان کی جانب سے 31 مارچ کی دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے ملک میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور وطن واپسی کی تازہ مہم میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہزاروں پناہ گزینوں کو پکڑ کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے کہا تھا کہ وہ مارچ کے اختتام تک اپنے ملک واپس چلے جائیں، ورنہ بصورت دیگر مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پناہ گزینوں نے سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مقیم آٹھ لاکھ افغانوں کے پاس ریزیڈنسی اجازت نامے ( اے سی سی) کارڈز تھے، جنہیں منسوخ کیا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اطلاع دی کہ یکم اپریل سے کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

پاکستانی حکومت کے ایک اہلکار نے بھی اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "ہماری مہم زور پکڑ رہی ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے۔"

طالبان حکومت کا رد عمل

ادھر پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت نے منگل کے روز ہی پاکستان کی جانب سے افغانوں کو ملک سے نکالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے "تشدد" کی مذمت کی۔

طالبان کی وزارت برائے مہاجرین نے وطن واپسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے مشترکہ معاہدے پر زور دیتے ہوئے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا: "ہمسایہ ممالک کی طرف سے ان (افغانوں) کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔"

طالبان کی وزارت نے مزید کہا، "انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تمام پناہ گزینوں کو اپنی دولت، سامان اور گھریلو ساز و سامان اپنے ساتھ اپنے ملک لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔"

طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کا مزید کہنا تھا، "کسی کو بھی مہاجرین کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔"

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

لاکھوں افغانوں کے رہائشی کارڈ منسوخ

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اتوار اور پیر کو اوسطاً 4,000 افغانوں نے پاکستان سے سرحد عبور کی، جو کہ مارچ کے مہینے میں یومیہ اوسط صرف 77 سے کہیں زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں رہتے ہیں، جس میں سے تقریبا آٹھ لاکھ کے ریزیڈنسی کارڈ (اے سی سی) اپریل میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔

ادارے کے مطابق تقریبا 13 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس یہ رہائشی اجازت نامے اب بھی آئندہ 30 جون تک موجود ہیں، کیونکہ وہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔

حالیہ دنوں میں سرحد پار کرنے والے افغانوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ اپنا سارا سامان یا رقم لے جانے کے قابل نہیں تھے اور اسے چھوڑ کر پاکستان سے واپس آ گئے، جبکہ بعض دیگر کو پکڑ کر براہ راست سرحد پر لے جایا گیا۔

’غیرقانونی تارکین وطن‘ 31 مارچ تک ملک چھوڑ دیں، حکومت پاکستان

انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویش

پاکستان نے 2023 میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کیا تھا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ مہم اس کوشش کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم تارکین وطن کو روکنا ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اب بھی تیس لاکھ افغان ملک میں باقی ہیں۔

افغانستان ہیومن رائٹس واچ کی فریشتہ عباسی نے کہا، "پاکستان لوگوں کو وہاں واپس نہ بھیجنے کے اپنے ہی بین الاقوامی عہد کو ترک کر رہا ہے، جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔"

’پاکستان تمام افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے‘

کابل اور اسلام آباد میں تنازع

گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک عسکریت پسند گروپ ہے، جو سن 2007 سے ہی پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتا رہا ہے۔

طالبان حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد سے پاکستان میں افغانوں کی مبینہ گرفتاریوں کی اطلاعات کے درمیان افغانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں افغان باشندے زیادہ انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی زندگی: کریک ڈاؤن، بے یقینی اور مشکلات

ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کی مہم کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں کئی دہائیوں کے مسلح تصادم کے دوران اور 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرحد عبور کی تھی۔

ص ز/ ر ب (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پناہ گزینوں ملک بدری کا اسلام آباد لاکھ افغان طالبان کی میں افغان کے دوران کے بعد کے لیے کیا جا کو ملک رہا ہے

پڑھیں:

فلسفۂ قربانی

انسان کی فطری و بنیادی خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خصلت ایثار و قربانی ہے اور یہ وہ عظیم وصف ہے، جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتا ہے، ورنہ تو خود غرض اور مفاد پرست انسان اور ایک حیوان کے درمیان کوئی جوہری فرق کیا باقی رہ جاتا ہے ۔۔؟

ازروئے قرآن حکیم تو ایسے انسان حیوانات اور درندوں سے بھی بدتر ہیں، جنہیں خدا نے فطری طور پر اجتماعی شعور ودیعت فرمایا مگر وہ محض اپنی ذات اور خاندان کے مفاد تک ہی محدود اور محصور رہے۔ آج سے قربانی کے عظیم ایام شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ حسب معمول ابھی تک مبہم اور غیر واضح ہے کہ یہ تمام تر مشقّت آخر کس مقصد کے لیے ہے ۔۔۔ ؟

کہنے اور سننے کی حد تک تو سبھی کا ماننا ہے کہ یہ عمل خدا کی خوش نُودی کے لیے سرانجام دیا جاتا ہے لیکن سماج اور معاشرے میں مطلوبہ نتائج پیدا نہ ہونے کے باعث لگتا یوں ہے کہ یہ عظیم الشان سنتِ ابراہیمیؑ اب محض ایک رسم اور دکھاوا بن چکی ہے۔

امام انسانیت سیّدنا ابراہیمؑ نے خدا کی خوش نُودی اور خلقِ خدا کی بہبود کے لیے آتشِ نمرود میں چھلانگ لگانے سے بھی اعراض نہ فرمایا اور پھر اپنے لاڈلے صاحب زادے سیّدنا اسمٰعیلؑ اور سیّدہ ہاجرہ کو خدا کے حکم سے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ دیا۔ بعدازاں ایک اور سخت ترین امتحان اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کر دینے کے حکمِ خداوندی سے شروع ہُوا تو آپؑ کی ثابت قدمی و استقلال سے دُنبے کو ذبح کردینے پر منتج ہوگیا۔ اپنے چنیدہ بندے کی اطاعت شعاری و وفا کیشی کی یہ عظیم ادا خالق ارض و سماء کو اس قدر محبوب ٹھہری کہ تب سے ابد تک قربانی کی یہ سنّت ملّتِ ابراہیمی کا شعار، سنگھار اور حسنِ اظہار قرار پائی۔

بعض لوگ جب سطحی نظر سے قربانی کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں یہ عمل خدا نہ خواستہ خلافِ انسانیت اور ظلم دکھائی دیتا ہے، حالاں کہ عام حالات میں دورانِ سال اس سے کہیں زیادہ جانور اور پرندے انسانی خوراک بنتے ہیں تو اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، دوسرا یہ کہ کائنات کے اندر دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسانی شرف اور مقام کا صحیح ادراک نہ ہونے سے اس طرح کے جدید توّہمات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔

اسی طرح ہم میں سے بعض مسلمانوں کا اخلاقی زوال اور ہمارے دُہرے معیارات بھی اِس طرز کی غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کی وجہ بنتے ہیں۔ نماز سے لے کر روزہ و قربانی تک تمام عبادات کا اساسی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ قرآن حکیم سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خدا تک ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بل کہ اس تک تمہارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ آیت کریمہ کا یہ جزو قربانی کے فلسفے اور بنیادی مقصد کو واضح کرنے کے لیے خدائے بزرگ و برتر کا دوٹوک اور حتمی اعلان ہے۔

اب غور فرمائیے کہ بُخل اور حرص و طمع پر مبنی فکر و عمل سے ہماری تمام کوشش رائیگاں چلی جائے تو کس قدر بدنصیبی ہوگی ؟ ’’اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی کیجیے۔‘‘ اور جب اپنے رب کی خاطر نماز اور قربانی کا اہتمام ہوگا تو یہ اعمال بندوں کے ظاہر و باطن میں وہ انقلاب پیدا کریں گے کہ اگلی آیت کریمہ کے مطابق: ’’تمہارا دشمن ہی ابتر اور ذلیل و رُسوا ہوگا۔‘‘ جب نماز اور قربانی کا عمل بھی موجود ہو لیکن انسانی قلوب اور معاشرتی اسلوب میں تقوٰی و طہارت اور عدل و ایثار ناپید ہو تو پھر یک لمحہ سکوت و سکون سے سوچنا ہوگا کہ قربانی کی عظیم ترین سنّت ابراہیمی کہیں رسمِ محض تو بن کر نہیں رہ گئی ۔۔۔ ؟

خدا کو تو روح بلالی کے بغیر رسمِ اذان اور روح ابراہیمی کے سوا رسم قربانی کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے اور اُسے تو ان اعمال سے فقط ہماری اصلاح و فلاح اور ارتقاء مطلوب ہے تاکہ ہم اس کے مقرب و محبوب بن سکیں۔ ہمارے خالق و مالک کو بہ خوبی علم تھا کہ انسان نفع عاجل اور ظاہری مفاد کے حصول میں بے قرار مگر خفیہ و پائیدار فائدے سے بے زار رہتا ہے، سو قربانی کی غایتِ اصل یعنی تقوٰی کو بُھلا کر گوشت اور خون کے بہانے اور بڑھانے سے آگے نہ بڑھ پائے گا۔ یہی تو ایک انسان اور مسلمان کا امتحان ہے کہ وہ پائیدار و ناپائیدار میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے ۔۔۔ ؟

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو ’’بندۂ مومن‘‘ اپنی قربانی کے گوشت سے کسی مجبور اور ضرورت مند کو کچھ دینے سے معذور ہے بھلا وہ اپنی جان سے گوشت اور خون کب راہِ خدا میں قربان کرنے کی ہمّت کر سکے گا ۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ ہر سال راہ خدا میں جانوروں کا خون بہانا دراصل ایک اعلی ترین نصب العین کی خاطر اپنے جان و مال کی قربانی کے لازوال انسانی جذبے کا اظہار کرنا ہے۔

قرآن حکیم کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اﷲ تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جان و مال کے عوض جنّت کا سودا کر چھوڑا ہے۔ ہماری تمام تر صلاحیتیں اور نعمتیں ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں جب کہ دوسری طرف کرۂ ارضی پر آتش نمرودی بھی برابر بھڑکتی ہوئی دامن انسانیت کو خاکستر کیے جا رہی ہے۔

بہ قول ڈاکٹر محمد اقبالؒ

آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

اگر ہماری قربانی ہمارے اندر موجودہ عالمی نمرودی نظام کے خلاف جدوجہد کا داعیہ پیدا نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم روح سے خالی رسمِ قربانی پر تو کاربند ہیں مگر تاحال ظلم و استحصال سے نفرت اور عدل و ایثار سے محبّت ہمارے اندر جاگزیں نہیں ہو سکی۔ المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام سے انسانوں کی اصل فطرت اس قدر مسخ اور تباہ ہوچکی ہے کہ افراد کی اکثریت اپنی ناک سے آگے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی اور حکم رانوں سے لے کر عوام الناس تک کی اکثریت انفرادیت پسندی اور مفاد پرستی کے مرض کا بُری طرح شکار ہو چکے ہیں۔

قربانی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اپنی انانیت کو اجتماعیت کے اندر فنا کر ڈالیں اور دوسرے انسانوں کی بقاء و ارتقاء کے لیے اپنا تن، من اور دھن وار دیں۔ ابھی ماضی قریب کی معاشرتی و مذہبی روایت یہی تھی کہ قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا یعنی ایک محتاج اور غریب طبقے کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب اور تیسرا حصہ گھر کے لیے رکھ لیا جاتا، جس میں سے عید کے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی۔ لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے بعض افراد نے سارے گوشت کو گھر میں منجمد کرنے کی گنجائش تک نکال لی ہے، جو درست ہے۔

مگر وطن عزیز میں تو اسّی فی صد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے اور گوشت، پھلوں کے بغیر سادہ و یک ساں خوراک پر گزر بسر کرتی ہے۔ نصف آبادی صرف گوشت چکھنے کے لیے سال بھر عیدِ قربان کی منتظر رہتی ہے، ایسے میں دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے منہگے ترین بکروں، گائے اور بیلوں کی نمائش اور قربانی کرکے ذخیرہ کر ڈالنا سنّت ابراہیمیؑ اور شریعت محمدیؐ کی اصل روح سے متصادم ہی ٹھہرے گا۔ جب معاشرے اور سماج میں اکثریت ضرورت مند اور محروم المعیشت طبقے کی ہوگی تو قربانی کے گوشت کو تقسیم کرکے حق داروں تک پہنچانا لازم ٹھہرے گا البتہ اگر معاشرہ خوش حال و ترقی یافتہ ہے تو گوشت کو ذخیرہ کر لینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا۔

اسی لیے تو قرآن حکیم ہمیں تعلیم دیتا ہے ہم اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اُس اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ گویا بندۂ خدا تو خدا کی منشاء و رضا میں مکمل فدا و فنا ہوتا ہے اور یہی قربانی کی عظیم الشان سنّت ابراہیمی کا مقصد و مدّعا بھی ہے ورنہ تو سبھی کچھ نمود و دکھاوا ہے۔

عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر بھرنے سے احتراز کیجیے اور نادار و بے کس خلق خدا کا حصہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان تک پہنچائیے کہ یہی ایثار و قربانی کا درس اور قربانی کا اصل مقصد و منشاء ہے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • فلسفۂ قربانی
  • طالبان کا مغرب نواز شہریوں کیلیے عام معافی کا اعلان؛ افغانستان واپس آنے کی دعوت
  • پاکستان مصر کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کا خواہاں ہے، وزیراعظم
  • عید پر صحیح جانور چننا بچوں کا کھیل نہیں، جرمن سفیر ایلفرڈ گرانیس
  • غیرقانونی غیر ملکیوں اورافغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی باعزت وطن واپسی کا عمل جاری
  • پاک افغان بارڈر پر پاک فوج کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
  •   یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام