شدید گرمی اورہیٹ ویو کا خطرہ,پی ڈی ایم اے کا سکولوں کے اوقات میں تبدیلی کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
سٹی42: پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے شدید گرمی اور ہیٹ ویو کے خطرے کے پیش نظر محکمہ سکول ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کو مراسلہ جاری کر دیا جس میں سکولوں کے اوقات کار میں رد و بدل اور گرمی کی چھٹیاں جلد شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مراسلے کے مطابق تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو بھی سکولوں اور کالجوں کے اوقات کار اور چھٹیوں کے حوالے سے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلباء کے بورڈ امتحانات نہ لینے کا فیصلہ
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل، عرفان علی کاٹھیا نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں بلا تعطل صاف اور ٹھنڈے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کو ہلکے، ڈھیلے کپڑے پہننے کی واضح ہدایات بھی دی جائیں۔
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عارضی طور پر آؤٹ ڈور سرگرمیوں پر فی الفور پابندی عائد کر دی جائے اور کلاس رومز کی وینٹیلیشن، پنکھے اور کولنگ سسٹم کو فنکشنل رکھا جائے۔
اسلام میں اعضا ءاور خون کا عطیہ دینا جائز ہے:علامہ راغب حسین نعیمی
پی ڈی ایم اے نے یہ بھی کہا کہ سکولوں میں ابتدائی طبی امداد کے کاؤنٹرز قائم کیے جائیں اور ہیٹ ویو کے حوالے سے تربیت یافتہ سٹاف کو ڈیوٹی پر مامور کیا جائے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42 پی ڈی ایم اے
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔