افغان طالبان نے بگرام ایئر بیس کو امریکہ کے حوالے کیے جانے کی اطلاعات کی تردید کردی۔
دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تردید ان افواہوں کے بعد سامنے آئی ہے جن میں اتوار کو ایئربیس پر امریکی جہاز پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ امریکی سی 17 طیارے نے قطر کے شہر العدید سے اڑان بھاری تھی اور پاکستان سے ہوتے ہوئے افغانستان پہنچا۔
جہاز میں امریکہ کے انٹیلی جنس حکام موجود تھے جن میں سی آئی اے کے نائب سربراہ مائیکل ایلیس بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ طالبان نے امریکی صدر کی جانب سے کابل کے شمال میں واقع ایئربیس میں دلچسپی ظاہر کیے جانے بعد بیس امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔
تاہم دوسری جانب طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان رپورٹس کو بے بنیاد اور پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت ایئربیس پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔
بیان کے مطابق ’اس وقت افغانستان میں کسی دوسرے ملک کی فوجی موجودگی کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی امارات اسلامی ایسے کسی اقدام کی اجازت دے گی۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ’اڈے پر امریکہ کا قبضہ ناممکن ہے۔
افغان حکومت کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد تکل نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ ’بیس پر قبضے کے حوالے سے خبر درست نہیں ہے۔
بگرام بیس کا حجم ایک چھوٹے شہر کے برابر ہے جو 20 سال تک نیٹو افواج کے پاس رہا اور اس کو کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔
اس میں دو رن ویز ہیں اور 100 جہاز کھڑے کرنے کی گنجائش ہے جبکہ ایک پیسنجر لاؤنج بھی ہے۔ اسی طرح اس میں 50 بستروں پر مشمتل ایک ہسپتال بھی ہے جبکہ خیمہ بستی کے لیے استعمال ہونے والا سامان بھی بڑی مقدار میں موجود ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکہ کے کے حوالے

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔

دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

متعلقہ مضامین

  • امریکہ تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات مکمل ختم اور اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرے، چین
  • فلپائن آبنائے تائیوان میں امن کو  سبوتاژ کرنے سے باز رہے، چینی میڈیا
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • حکومت کا مزید ایک ہزار یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
  • غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے