Express News:
2025-09-18@20:08:52 GMT

اب بے حسی کی چادر پھاڑ دیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

سرزمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے صرف سیراب نہیں بلکہ سیر ہوچکی ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ دار کے لیے بھوک وپیاس بار گاہ الٰہی میں قرب کا ذریعہ اور اس کے بعد عید الفطر ہر مسلمان کے لیے خوشی ومسرت کا تہوار ہے مگر بحیثیت امت یہ خوشی ادھوری ہے کیونکہ ارض مقدس کے باسی صدیوں سے عیدین کی خوشیوں سے محروم ہیں۔

پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کِھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر فلسطینیوں کے بچوں کے نصیب میں کِھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔ بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انھیں کس جرم کی پاداش میں یتیمی کے عذاب سے دوچار اور ان کے والدین کو تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟ فلسطین میں عید خوشی کا دن نہیں اداسی کا دن ہے۔

صیہونی طیاروں اور توپوں کی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنے غزہ میں سجاوٹ نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی در و دیواروں کو شہداء کے ناموں سے مزئین کیا جاتا ہے، عید کے تحائف کا نہیں تعزیتی کلمات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ گلی کوچوں میں بچوں کے قہقہے نہیں دلوں کو چیرنے والی چیخیں امت کے بے حس حکمرانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے گونجتی ہیں۔ غزہ میں عید مبارک کی جگہ زندہ بچ جانے والوں، ملبے کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں اور رات کی تاریکی کے قتل عام کے بعد خاندان کے یتیم بچوں کے بارے میں باتیں ہوتی ہے۔ اس بچے کے بارے میں جو کل کھیل رہا تھا، اور آج وہ دیوار پر تصویر بن گیا ہے۔

غزہ کے بچے نئے کپڑے نہیں اپنے خون سے غسل کرکے اپنے پروردگار کے دربار میں تمغہ شہادت سینوں پر سجا کر پیش ہوتے ہیں۔ اور یقیناً مسلمان حکمرانوں خصوصاً عرب حکمرانوں کی شکایت کرتے ہوئے جنت الفردوس میں داخل ہوتے ہوں گے۔ غزہ کے مسلمان عید کے لیے نئے کپڑے، بچیوں کے لیے چوڑیاں اور بچوں کے لیے چاکلیٹ، ٹافیاں نہیں تابوت خریدتے، عید پر مبارکباد نہیں تعزیتی کلمات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

غزہ سمیت پورے خطے کو صیہونی دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر مغربی کنارے کی صورت حال بہتر نہیں ہے کیونکہ ناجائز قبضے نے فلسطینیوں کو یہ محسوس کرنے کا موقع نہیں دیا کہ عید بھی وہاں ظلم و زیادتی کے کسی دن سے مختلف ہے۔ غزہ میں عید کا رنگ ہی الگ ہے یہ خوشی کا نہیں پتھروں پر خون کا رنگ، سوگواروں کے لباس میں ماتم کا رنگ ہے۔ عید کی نماز میں فلسطینیوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو خواہشات کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ صیہونی طیاروں کی بمباری اور اسنائپرزکی گولی سے نجات پانے اور قابض اسرائیلی فوجیوں کے ظلم و بربریت سے بچنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

غزہ میں موت کا کھیل جاری ہے وہاں موت کے سوا کچھ نہیں۔ اہل غزہ نہیں جانتے کہ وہ کس دنیا سے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جس میں ان کی جڑیں ہیں لیکن وہ اکھڑ چکی ہیں اور ایک ایسی دنیا جس میں وہ رہتے ہیں، لیکن جو انھیں پہچان نہیں پاتی۔ بیگانے تو بیگانے، اہل غزہ کے مظلوموں کے لیے تو اپنے بھی بیگانوں سے بدتر ہوچکے ہیں۔ ستاون سے زائد اسلامی ممالک میں کوئی بھی ارض مقدس کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہر مسلمان حکمران کی خواہش ہے کہ کھلم کھلا اسرائیلی اور اس کے مظالم کی حمایت کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا آشیر باد انھیں مل جائے۔

سچ پوچھیں تو مسلمان حکمرانوں کی غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے کیونکہ انبیا کی سرزمین فلسطین خون میں غلطان بزبان حال اپنی داستان الم سنا رہی ہے لیکن یہ بے حس حکمران سننے کے لیے تیار نہیں، غیروں سے گلہ کیا، اپنے کلمہ گو بھی گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک 50ہزار کے لگ بھگ بے بس، لاچار اور بے یارو مدد گار فلسطینی صیہونی دہشت گردی کا شکار بن چکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد زخموں سے چور ہیں۔ شہدا میں15 ہزار صرف بچے اور10 ہزارسے زائد خواتین ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ اسرائیل مستقبل کے معماروں اور ان معماروں کو جنم دینے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہا ہے تاکہ اسے آنے والے کل میں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بے حس اورمکار مسلم حکمران اس پیغام کو سمجھیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کریں۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا تو سقوط بغداد پر نظریں جا ٹکیں، آج کے حالات سقوط بغداد سے کسی طور مختلف نہیں لیکن ایک بڑا فرق ضرور دکھائی دے رہا ہے۔ سقوط بغداد کے لیے علماء کرام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان کے فروغی اختلافات پر مناظروں کے سبب یہ دن دیکھنا پڑا لیکن آج تو پوری دنیا کے علماء فلسطین کے مسئلے پر یکسو اور اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر سقوط غزہ (اللہ نہ کرے) کی صورت میں مصلحتوں کے شکار مسلمان حکمرانوں مظلوموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔

 اس وقت فلسطینی تحریک تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ٹرمپ کی بے جا حمایت سے ٹڈی دل صیہونیوں کے حوصلے بلند ہوئے، انھوں نے جارحیت کے ایک نئے باب کا آغاز کردیا ہے۔ اسرائیلی عزائم اور سرگرمیاں زیادہ خطرناک شکل اختیار کر رہی ہیں۔ اب اسلامی ممالک بالخصوص عرب ریاستوں کو بے حسی کی چادر چھوڑنی پڑے گی ورنہ تاریخ رقم اور لکھی جا رہی ہے، لکھا جارہا ہے کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکا۔ لکھا جا رہا ہے کہ مصر کے پاس دریائے نیلم تھا اور غزہ کے باسی پیاس سے بلک رہے تھے اور یہ بھی لکھا جارہا ہے کہ سعودی عرب، امارات کے پاس تیل کے وسیع خزانے تھے مگر غزہ کے اسپتالوں اور ایمبولینسوں کے لیے ایندھن نہیں تھا۔

تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ خلافت کا علمبردار ترکی نے اسرائیل سے ایک لمحے کے لیے بھی سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ مسلم ممالک کے پاس طاقتور ترین فوجیں، جدید اور وسیع جنگی ساز و سامان موجود تھا لیکن اہل فلسطین کے حق میں کسی نے ایک گولی تک نہیں چلائی، اس لیے اے مسلمان حکمرانوں اگر تاریخ میں زندہ رہنا، آنے والی نسلوں اور بالخصوص اللہ کے غیض و غضب سے بچنا چاہتے ہو تو بس اب بے حسی کے چادر پھاڑ دیں، غیرت کا مظاہرہ کرکے سنجیدگی کے ساتھ زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی طے کریں۔

وقت کا تقاضا اور فلسطین کے مقدمہ کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک او آئی سی کو بیان بازی کے بجائے غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا جاندار پلیٹ فارم بنائیں۔ عالم اسلام اپنے وسائل، صلاحیتوں، استعداد، جغرافیائی و تزویراتی حیثیت و اہمیت کا درست ادراک اور بہتر استعمال کر کے آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کو یقینی بنائیں۔ مسلمان دسترخوان پر پڑے تر نوالے کی طرح بھوکے صیہونیوں کے رحم و کرم پر ہیں اور مسلمان حکمران شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنے سر دبا کر بیٹھے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چلے گا اگر حکمران نہ جاگے تو عوام کے غیض و غضب کا سیلاب انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ سقوط بغداد کا ملبہ علماء پر گرایا گیا تھا مگر خدانخواستہ اگر سقوط غزہ بپا ہوا تو ساری ذمے داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوگی اور آنے والی نسلیں ہی نہیں اللہ رب العزت بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کے کے ساتھ بچوں کے نے والی نہیں ا کی طرح غزہ کے

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • محبت کے چند ذرائع
  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس