نیویارک (اوصاف نیوز) ٹرمپ انتظامیہ کا امریکی ویزوں کی منسوخی کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان، حراست اور ملک بدری کی بڑھتی ہوئی لہر نے امریکی کیمپسز میں صدمے کی لہر پیدا کردی ، امریکی یونیورسٹیاں خالی ہونے لگیں جس کے باعث غیر ملکی، بالخصوص فلسطین نواز سرگرمیوں سے وابستہ طالب علموں کو بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وہ دن جب غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے امریکا بھر کے کیمپسز میں مظاہروں کو جنم دیا تھا، اب ماضی کی بات بن چکے ہیں، آج یونیورسٹیوں کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے، جہاں معمولی خلاف ورزیاں بھی طالب علموں کے ویزوں کی منسوخی کا سبب بن سکتی ہیں۔

وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ انہوں نے تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک حالیہ بریفنگ میں جارحانہ کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ محکمہ خارجہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اپنی کمیونٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر روز ویزے منسوخ کرتا ہے اور ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے۔

جب محکمہ خارجہ کے ترجمان سے امریکا میں پناہ لینے والے کمزور افراد جیسے خانہ جنگی سے متاثرہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مزید دوٹوک انداز میں کہا کہ ہر ملک کو اپنے شہریوں کی بروقت واپسی کو قبول کرنا چاہیے جب امریکا سمیت کوئی دوسرا ملک انہیں نکالنے کی کوشش کرے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان کی عبوری حکومت اس اصول کا مکمل احترام کرنے میں ناکام رہی ہے اور کسی ایسے شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جس کی انہوں نے تصدیق کی تھی اور اسے دستاویزی طور پر شہری قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کا محکمہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکنے کے لیے ویزوں کے مزید اجرا کو محدود کرے گا، انہوں نے کہاکہ ’جنوبی سوڈان نے مکمل تعاون کیا تو ہم ان اقدامات کا جائزہ لیں گے‘۔

بدھ کے روز امیگریشن حکام نے اعلان کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے اور ایسے افراد کو ویزا یا رہائشی اجازت نامے دینے سے انکار کریں گے جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ یہود مخالف مواد پوسٹ کرنے کا مرتکب تصور کرے گی۔

یہ اقدام طالب علموں کے ویزوں کی منسوخی کے بعد اٹھایا گیا ہے، حالانکہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔مارکو روبیو نے کہا تھا کہ غیر امریکی شہریوں کو امریکیوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں اور ویزا جاری کرنا یا انکار کرنا ججوں کی صوابدید پر نہیں بلکہ ان کی صوابدید پر ہے۔

ہوم لینڈ سکیورٹی کی وزیر کرسٹی نوئم نے واضح کیا ہے کہ جو کوئی بھی یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آ سکتا ہے اور ’یہودی مخالف تشدد اور دہشت گردی‘ کی وکالت کرنے کے لیے پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے، وہ ایک بار پھر سوچے، محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹریشیا میک لاگلن نے کہا کہ آپ کا یہاں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز سوشل میڈیا پر ایسے مواد پر غور کرے گی جس میں کسی اجنبی کی جانب سے یہود مخالف دہشت گردی، یہود مخالف دہشت گرد تنظیموں یا دیگر یہود مخالف سرگرمیوں کی حمایت، تشہیر، فروغ یا حمایت کی نشاندہی کی گئی ہو۔

یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور اس کا اطلاق اسٹوڈنٹ ویزا اور امریکا میں مستقل رہائش ’گرین کارڈ‘ کی درخواستوں پر ہوگا۔

طلبہ اور جامعات پریشان
منگل کو ٹیمی بروس این بی سی نیوز کی صحافی اینڈریا مچل کے سوالوں کا جواب دے رہی تھیں، جنہوں نے طالب علموں کے ویزوں کی بڑے پیمانے پر منسوخی کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’کچھ معاملات میں، طالب علموں نے کہا ہے کہ ان کے ویزے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کیے گئے تھے، نہ کہ احتجاج یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے، اینڈریا مچل نے سوال کیا کہ کیا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرنے کا کوئی واضح طریقہ کار یا حد ہے؟

ٹیمی بروس نے اس کے جواب میں محکمے کے اقدامات کا اعتراف کیا، لیکن تفصیلات فراہم نہ کرنے پر قائم رہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی بھی ویزا کے عمل کی تفصیلات کا جائزہ نہیں لیا، ہم پرائیویسی کے مسائل کی وجہ سے انفرادی ویزا پر بات نہیں کرتے، ہم اعداد و شمار جاری نہیں کرتے ہیں، اور ہم انفرادی ویزوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کی پس پردہ منطق میں نہیں جاتے‘۔

لیکن محکمہ خارجہ کی جانب سے ان فیصلوں کی کوئی واضح دلیل فراہم کرنے یا اعداد و شمار ظاہر کرنے سے انکار نے بین الاقوامی طالب علموں میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

جامعات ویزے کی منسوخی کی بڑی تعداد سے پریشان ہیں، حالیہ ہفتوں میں ہارورڈ، یونیورسٹی آف مشی گن، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی جیسے بڑے اداروں کے غیر ملکی طالب علم متاثر ہوئے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) نے 3 گریجویٹ طالب علموں اور 2 حالیہ گریجویٹس کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔بہت سے اسکولوں ، بشمول کیلیفورنیا میں یو سی برکلے اور یو سی ڈیوس ، کو اس حقیقت کے بعد ہی ان منسوخیوں کے بارے میں پتہ چلا۔

امریکا سے باہر نہ جائیں
صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ براؤن، کارنیل اور کولمبیا سمیت متعدد یونیورسٹیوں نے داخلی سفری ہدایت جاری کی ہے جس میں بین الاقوامی طالب علموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر کے کسی بھی منصوبے پر نظر ثانی کریں۔

اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر سیزر کوہٹیموک گارسیا ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ ’جو کوئی بھی امریکی شہری نہیں ہے اسے امریکا چھوڑنے کی ضرورت کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے‘۔اگرچہ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے سلسلے میں حکومت کا کریک ڈاؤن سب سے زیادہ قابل ذکر رہا ہے، لیکن ویزا منسوخی کا دائرہ وسیع ہے۔

بہت سے بین الاقوامی طالب علم اب غیر یقینی کی حالت میں رہ رہے ہیں، انہیں یقین نہیں ہے کہ آیا ان کا ویزا اسٹیٹس بغیر کسی انتباہ کے منسوخ کر دیا جائے گا یا نہیں، کچھ لوگوں کے لیے، ایک ہی احتجاج یا یہاں تک کہ سوشل میڈیا پوسٹ ملک بدری یا حراست کا سبب بن سکتی ہے۔

اس نئی حقیقت نے کیمپسز میں ایک خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے ، جہاں طلبہ کو احتجاج یا سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ، خاص طور پر ایسی سرگرمیاں جو فلسطین سے متعلق ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ویزوں کی منسوخی ویزے منسوخ کر انہوں نے کہا جنوبی سوڈان کے بارے میں طالب علموں یہود مخالف نے کہا کہ کے ویزے تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ

اسلام ٹائمز: ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

یوم طلبہ اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 3 نومبر 2025ء کی صبح ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور اسی طرح مسلط کردہ بارہ روزہ جنگ کے کچھ شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کے بعض امریکی عہدیداروں کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون اور مدد سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت سے نفرت اور اس کی مذمت کے باوجود امریکا کی جانب سے اس حکومت کی مدد، پشت پناہی اور حمایت جاری رہنے کے بعد بھی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست کو لایعنی اور ناقابل قبول قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر امریکا صیہونی حکومت کی پشت پناہی پوری طرح سے چھوڑ دے، خطے سے اپنے فوجی اڈوں کو ختم کر دے اور اس علاقے میں اپنی مداخلت بند کر دے تو اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت اور مستقبل قریب میں نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے ماضی اور اسی طرح 4 نومبر 1979ء کو امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے کا تاریخی اور ماہیتی پہلو سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تاریخی پہلو سے اسٹوڈنٹس کے اس شجاعانہ اقدام کو ایرانی قوم کے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور کہا کہ ایران کی تاریخ میں، فتح کے دن بھی ہیں اور کمزوری کے بھی اور دونوں کو قومی حافظے میں محفوظ رہنا چاہیئے۔ انھوں نے اس بڑے واقعے کے ماہیتی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے نے امریکی حکومت کی ماہیت اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی حقیقی ماہیت کو عیاں کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کے معنی میں قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ "استکبار" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں برطانیہ جیسی اور آج کل امریکا جیسی کوئی حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اقوام کے حیاتی مفادات کو لوٹ کر ان پر حکم چلائے یا کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت اور ہوشیار عوام نہیں ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اقوام کے تیل اور دیگر ذخائر کو لوٹے اور یہ وہی استکبار یا سامراج ہے، جس کے ہم دشمن ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ انھوں نے ایران میں دسیوں سال پہلے مصدق کی حکومت کو گرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، برطانیہ سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنے میں ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی یاد دہانی کرائی اور کہا کہ امریکیوں نے مصدق کو بھروسہ دلایا، لیکن ان کی پس پشت انھوں نے انگریزوں سے ہاتھ ملا کر بغاوت کرائی اور ایران کی قومی حکومت کو گرا کر ملک سے فرار ہوچکے شاہ کو ایران میں واپس لوٹایا۔

انھوں نے امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پاس ہونے والے معاندانہ بل کو اسلامی انقلاب سے امریکا کا پہلا ٹکراؤ بتایا اور محمد رضا کو امریکا میں آنے دینے پر ایرانی رائے عامہ کے غیظ و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کو محسوس ہوا کہ امریکی اپنے ملک کو شاہ کو بسا کر، ایک بار پھر ایران میں بغاوت کرانا اور شاہ کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ طیش میں سڑکوں پر آگئے اور ان کے اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کا ایک حصہ، امریکی سفارتخانے پر قبضے پر منتج ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ابتدا میں اسٹوڈنٹس صرف دو تین دن سفارتخانے میں رہنا اور دنیا کے سامنے صرف ایرانی قوم کے غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں سفارتخانے میں ایسے دستاویزات ملے، جن سے پتہ چلا کہ معاملہ تصور سے کہیں آگے کا ہے اور امریکی سفارتخانہ، انقلاب کو ختم کرنے کی سازشوں کا مرکز ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں سفارتخانوں کے معمول کے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا مسئلہ، معلومات اکٹھا کرنے کا نہیں تھا بلکہ امریکی سازشوں اور چالوں کا ایک مرکز بنا کر انقلاب کے خلاف کارروائی کے لیے شاہ کی حکومت کی باقیات، فوج کے بعض افراد اور کچھ دوسرے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے اور جب اسٹوڈنٹس کو یہ پتہ چلا تو انھوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کو ایران اور امریکا کے درمیان مسائل کی شروعات بتائے جانے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979ء کو نہیں بلکہ 19 اگست 1956ء کو شروع ہوا تھا، جب برطانیہ اور امریکا نے مصدق کے خلاف بغاوت کرائی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی وجہ سے انقلاب کے خلاف بہت گہری سازش اور خطرے کا پتہ چلا اور اسٹوڈنٹس نے یہ اہم کام کرکے اور دستاویزات کو اکٹھا کرکے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب سے دشمنی اور اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی اصل وجہ، امریکا کے منہ سے ایک شکار کا نکل جانا اور ایران کے ذخائر پر سے امریکا کا تسلط ختم ہو جانا بتایا اور کہا کہ وہ اتنی آسانی سے ایران کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسی لیے انھوں نے شروع سے ہی نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی لگاتار دشمنی کو امام خمینی کے اس جملے کی حقانیت کی نشانی بتایا کہ "آپ جتنا بھی برا بھلا کہنا چاہتے ہیں، امریکا کو کہیں۔" انھوں نے کہا کہ امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی بلکہ امریکیوں نے ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندی، سازش، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی مدد، ایران پر حملے کے لیے صدام کو ترغیب دلانے اور اس کی حمایت، تین سو افراد کے ساتھ ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے، پروپیگنڈوں کی جنگ اور براہ راست فوجی حملے جیسا ہر کام کیا، کیونکہ امریکا کی ماہیت، اسلامی انقلاب کی خود مختارانہ ماہیت سے میل نہیں کھاتی اور امریکا اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی ٹیکٹکل اور جزوی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اور وجودی اختلاف ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے بعض لوگوں کی طرف سے "امریکا مردہ باد" کے نعرے کو ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی وجہ قرار دیے جانے کو تاریخ کو الٹا لکھنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ نعرہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے امریکا ہماری قوم سے ٹکرا جائے، اسلامی جمہوریہ سے امریکا کا اصل مسئلہ، ماہیت کا اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے، لیکن کیا ابد تک ہمارے اس سے تعلقات نہیں ہوں گے؟ کہا کہ امریکا کی سامراجی ماہیت، فریق مقابل کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کو نہیں مانتی اور یہ چیز سبھی امریکی سربراہان مملکت چاہتے تھے، لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے، تاہم ان کے موجودہ صدر نے یہ بات کھل کر زبان سے کہہ دی اور امریکا کے باطن پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اتنی زیادہ توانائی، ثروت، فکری و نظریاتی ماضی اور ذہین و پرجوش نوجوان رکھنے والی ایرانی قوم سے سرینڈر ہو جانے کی توقع رکھنے کو فضول بتایا اور کہا کہ مستقبل بعید کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس وقت سبھی جان لیں کہ بہت سے مسائل کا علاج، طاقتور بننا ہے۔ رہبر انقلاب نے اس خطاب میں انقلاب اور امریکہ دشمنی کی ماہیت کو بیان فرمایا ہے اور اس دشمنی کی وجوہات پر موجودہ صورتحال کے تناظر میں روشنی ڈالی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ایران کا اختلاف کیوں اور کس لئے ہے؟ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیے میں، بعض اوقات اختلافات اور محاذ آرائی محض عارضی ہوتی ہے، جو حکمت عملی میں تبدیلی سے حل ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان تصادم میں، ہمیں ایک گہرے اور ملٹی ڈائیمینشن (کثیرالجہتی) رجحانات کا سامنا ہے۔ رہبر معظم انقلاب کے بقول بڑا فرق "اندرونی و ماہیتی فرق" ہے۔

رہبر انقلاب کے یہ دانشمندانہ الفاظ امریکہ سے دہائیوں کی کشیدگی اور محاذ آرائی کو سمجھنے کی کلید ہیں۔ لیکن اس اندرونی فرق کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ کس سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔؟ 
1۔ دونوں حکومتوں کی فلسفیانہ بنیادوں میں تصادم کی بدولت، یعنی آزادی بمقابلہ تسلط۔
2۔ شناخت اور اقدار میں تصادم کی بدولت، یعنی خالص اسلام بمقابلہ سیکولر لبرل جمہوریت۔
3۔ تزویراتی مفادات میں تصادم کی وجہ سے، یعنی مزاحمت کا خطہ بمقابلہ بالادستی یا تسلط کا نظام۔
4۔ تاریخی واقعات اور گہری جڑوں والا عدم اعتماد، یعنی امریکہ کے ایران مخالف ماضی کے جرائم۔

ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا میں بھارتی شہریوں کے عارضی ویزوں کی اجتماعی منسوخی پر غور
  • رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز، سکھ یاتریوں کی آمد کا سلسلہ جاری
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا، برطانیہ اور نا ہی آسٹریلیا! دنیا کا سب سے مہنگا سیاحتی ویزا کس ملک کا ہے؟
  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری
  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری 
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ٹرمپ کی 2026 ء کیلیے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر