گھر میں بڑھتے لال بیگوں سے پریشان؟ تو ان سے نجات کے آسان طریقے جانیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
لال بیگ وہ جاندار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھانے کے بغیر 3 ماہ، پانی کے بغیر ایک ماہ جبکہ ہوا کے بغیر 45 منٹ تک زندہ رہ سکتا ہے۔
مگر گھروں میں ان کا نظر آنا کسی کو پسند نہیں آتا کیونکہ ان کیڑوں کے باعث مہمانوں کے سامنے شرمندگی تو ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مختلف امراض کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
لال بیگ متعدد بیکٹریا اور وائرسز کو اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہیں اور آپ کو بیمار کر سکتے ہیں۔
مگر گھروں سے ان کی صفائی آسان نہیں ہوتی، اگر کیمیکل استعمال کیا جائے تو اس سے بھی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ خرچہ بھی کافی زیادہ ہوتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ چند گھریلو ٹوٹکوں سے بھی ان کیڑوں سے نجات میں مدد مل سکتی ہے۔
البتہ کیڑوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گھر میں نمی کو کم کیا جائے، ان کے داخلے کے مقامات کو بند کیا جائے اور گھر کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کریں۔
اسی طرح سنک پر گندے برتنوں کا ڈھیر نہ لگائیں اور کچرے کے ڈبے کو صاف رکھنے کی کوشش کریں۔
تو اب وہ طریقے جان لیں جن سے آپ بہت کم خرچ میں لال بیگ کو گھر ختم کر سکتے ہیں۔
بورک ایسڈ سے مدد لیں
بورک ایسڈ کو ان کیڑوں کے خلاف انتہائی مؤثر تصور کیا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے بورک ایسڈ کے پاؤڈر کی کچھ مقدار کو گھر کے کونوں اور فرش پر چھڑک کر چھوڑ دیں، اس سے کیڑوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
البتہ اگر بورک ایسڈ گیلا ہو جائے تو پھر یہ بیکار ہوتا ہے اور ہاں بچوں کو اس سے دور رکھیں کیونکہ یہ نقصان دہ ہوتا ہے۔
بیکنگ سوڈا بھی مفید
بیکنگ سوڈا اور چینی کو ملا کر لال بیگ جیسے کیڑوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
اس مقصد کے لیے چینی اور بیکنگ سوڈا کو ملائیں اور پھر اس مکسچر کو گھر کے کونوں اور ان جگہوں پر چھڑک دیں جہاں لال بیگ زیادہ نظر آتے ہیں۔
نیم سے بھی مدد مل سکتی ہے
نیم کے تیل یا پاؤڈر سے بھی ان کیڑوں کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک اسپرے بوتل میں نیم کے تیل کی تھوڑی سی مقدارکو پانی میں ملائیں اور اس مکسچر کو ان جگہوں پر اسپرے کریں جہاں لال بیگ زیادہ نظر آتے ہیں۔
اگر نیم کے پاؤڈر کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اسے رات کے وقت متاثرہ حصوں پر چھڑک دیں اور صبح یہ عمل پھر دہرائیں۔
پودینے کے تیل کو استعمال کریں
پودینے کا تیل بھی ان کیڑوں سے نجات کے لیے بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔
پودینے کے تیل کی کچھ مقدار کو نمک ملے پانی میں ملائیں اور پھر اس محلول کو گھر کے متاثرہ حصوں پر اسپرے کریں۔
مگر یاد رکھیں کہ راتوں رات لال بیگ ختم نہیں ہوں گے بلکہ کئی بار اس عمل کو دہرانے پر ہی بہترین نتیجہ سامنے آئے گا۔
لیموں کا عرق
لیموں کے عرق کی مہک ہمیں تو اچھی لگتی ہے مگر لال بیگ اسے پسند نہیں کرتے۔
2 سے 3 کھانے کے چمچ لیموں کے عرق کو پانی سے بھری ایک بالٹی میں ملا کر مکس کریں اور پھر گھر کے متاثرہ حصے کو اس سے دھو لیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بورک ایسڈ لال بیگ سے بھی کو گھر گھر کے کے تیل
پڑھیں:
اساتذہ کا وقار
کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔
ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔
80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔
1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔
تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔