علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی کی وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
ملاقات میں حج و عمرہ اور زیارات مقدسہ کے لیے بعض عوامی مسائل سے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا گیا اور حج، محرم اور اربعین سے قبل ان مسائل کو حل کر کے زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کی اپیل کی۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد علی آخونزادہ نے وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف سے ملاقات کی۔ اور حج و زیارات سے متعلق معاملات پر گفتگو کی۔ ملاقات میں حج و عمرہ اور زیارات مقدسہ کے لیے بعض عوامی مسائل سے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا گیا اور حج، محرم اور اربعین سے قبل ان مسائل کو حل کر کے زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کی اپیل کی۔ وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے حج و زیارات میں زائرین کو درپیش مسائل کو حکومت کی جانب سے حل کرنے کے کوششوں سے آگاہ کیا اور باہمی کاوشوں سے رواں برس حج و زیارات میں عوام کو مذید بہتر سہولیات دینے کی یقین دھانی کروائی۔
وفاقی وزیر نے ملک بھر میں اتحاد بین المسلیمین کے لیے بھی باہمی کاوشوں کو اہم قرار دیا۔ مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے بانی اتحاد امت قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی زیر قیادت شیعہ علماء کونسل پاکستان کے اتحاد بین المسلمین کے لیے ملک بھر میں جاری اقدامات سے آگاہ کیا اور اتحاد امت کے لیے باہمی کاوشوں کو وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر آگاہ کیا کے لیے
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔