اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) آج جمعرات کو دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نو ستمبر کو دوحہ پر بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے اسرائیل نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو قطر کی فضائی حدود میں بھی داخل نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی وہ تیل سے مالا مال اس عرب ریاست کے فضائی دفاعی نظام کو چکمہ بھی دے سکیں۔

ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کی قیادت کو ہدف بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر کے پانیوں کے اوپر فضا سے فائر کیے تھے۔

ہلاک شدگان کی تعداد اور اسرائیلی حملے کے اثرات

دوحہ میں ان میزائل حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے پانچ کا تعلق حماس سے تھا اور چھٹا ایک قطری سکیورٹی اہلکار تھا۔

(جاری ہے)

ہلاک ہونے والے حماس کے پانچوں ارکان اس فلسطینی تنظیم کے درمیانے درجے کے رہنما یا ارکان تھے، جن میں سے ایک خلیل الحیہ کا ایک بیٹا تھا۔

تاہم ان حملوں میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ سمیت اس فلسطینی تنظیم کی وہ اعلیٰ قیادت محفوظ رہی تھی، جسے اسرائیل ہدف بنا کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

قطر میں اسرائیل کے ان میزائل حملوں کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ سے جاری ان ثالثی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، جو قطر کی طرف سے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور حماس کو کسی فائر بندی معاہدے تک لانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔

اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہلاک کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سےغزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ ایک تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھی۔

حملہ کیسے کیا گیا؟

امریکہ کے جس دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہرنہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو اس اسرائیلی حملے کی تفصیلات بتائیں، اسے اس بات کا براہ راست علم تھا کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ کیسے اور کہاں سے کیا۔

اس اہلکار کے مطابق اسے حساس انٹیلیجنس معلومات افشا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ایک دوسرے امریکی دفاعی اہلکار نے بھی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ اسرائیل نے دوحہ میں یہ حملہ ''افقی پوزیشن‘‘ سے کیا اور اس وقت اسرائیلی جنگی طیارے ''قطر کی فضائی حدود سے باہر‘‘ تھے۔

امریکی فوج میں عام طور پر ''افقی پوزیشن‘‘ سے کی جانے والی کارروائی کی اصطلاح ان فضائی حملوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بہت دور سے کیے گئے ہوں۔

اسرائیلی جنگی طیارے کتنے تھے؟

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل نے ان فضائی حملوں کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو نہ صرف قطر بلکہ خطے کی دیگر عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کی فضائی حدود سے بھی باہر ہی رکھا۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس ایئر مشن میں تقریباﹰ 10 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اس دوران تقریباﹰ 10 میزائل فائر کیے گئے۔

اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس نے دوحہ میں اس بہت نپے تلے فضائی حملے میں کس طرح کے ہتھیار کہاں سے فائر کیے۔

ان حملوں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے نیوز ایجنسی اے پی نے اسرائیلی فوج، قطری حکومت اور امریکہ میں پینٹاگون سے تبصرے کی جو درخواستیں کیں، ان کا تینوں میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔

’ساری بات صرف چند منٹ کی تھی‘

برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو اور میزائلوں سے متعلقہ امور کے ماہر سدھارتھ کوشال نے بتایا، ''یہ میزائل فائر کیے جانے اور ان کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے درمیانی وقفے کی بات کی جائے، تو یہ ساری بات صرف چند منٹ کی ہی تھی۔

یہ کوئی بہت طویل وقت نہیں تھا۔‘‘

انہوں نے کہا، ''اگر قطری فضائی دفاعی نظام کو اس حملے کا علم ہو بھی گیا تھا، یا ہو بھی جاتا، تو بھی پیٹریاٹ میزائلوں کے لیے ان اسرائیلی بیلسٹک میزائلوں کو انٹرسیپٹ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔‘‘

اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملوں کے لیے کس طرح کے ذرائع کیسے استعمال کیے، اس بارے میں اولین تفصیلات امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کیں۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی جنگی بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے جنگی طیاروں اسرائیل نے فائر کیے

پڑھیں:

پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی محکمہ دفاع نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس فیصلے پر آخری دستخط صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرنے ہیں۔

امریکی میڈیا اور حکام کے مطابق پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس کو رپورٹ کی ہے کہ یوکرین کو یہ میزائل دینے سے امریکا کے اپنے دفاعی ذخائر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ یہ میزائل یوکرین کو دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی تھی جس میں پیوٹن نے خبردار کیا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے شہروں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی فراہمی امریکا روس تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ٹوماہاک کروز میزائل 1983 سے امریکی اسلحے کا حصہ ہیں۔ اپنی طویل رینج اور درستگی کے باعث یہ میزائل کئی بڑی عسکری کارروائیوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی میں بڑی پیشرفت
  • پینٹاگون نے یوکرین کو ٹوماہاک میزائل فراہمی کی منظوری دے دی
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی پر اہم پیشرفت
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں