Express News:
2025-11-03@17:09:30 GMT

دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

غالب نے کہا ہے:

شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

 یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا، آخری وقت میں جب بہادر شاہ ظفر نے رنگون کے قید خانے میں دم توڑا تو ساری محفل سیہ پوش ہوگئی۔ مغلوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور ہندوستان پوری طرح انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ وہ ہندوستان جس میں موجودہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما کے چند علاقے شامل تھے، آل تیمورکی پانچویں نسل کے سپوت ظہیرالدین بابر کی سلطنت تھے۔ ظہیرالدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

انگریز فرخ سیر کے زمانے سے چالیں چل رہے تھے، بہادر شاہ ظفرکو انگریزوں کے ایما پر بادشاہ بنایا گیا، اصل وارث بادشاہت کا مرزا جہانگیر تھا، لیکن وہ کسی بھی طور انگریزوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیگم ممتاز محل، ان بیگم کے چہیتے بیٹے تھے۔ مرزا جہانگیر جنھیں وہ وارث تخت و تاج بنانا چاہتی تھیں لیکن مرزا جہانگیر چونکہ انگریزوں کو ناپسند کرتے تھے اور انھوں نے ایک دفعہ انگریز حاکم اعلیٰ اسٹیفن پر اپنا پستول بھی چلا دیا تھا، اس لیے وہ انگریزوں کے لیے قابل قبول نہ تھے۔

بہادر شاہ ظفر ولی عہد تھے، بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمری تخت و تاج کی راہ تکتے گزری۔ وہ باسٹھ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے، اس وقت مغلوں کا جاہ و جلال رخصت ہو رہا تھا، حکومت تباہ اور خزانے خالی تھے۔ مثل مشہور تھی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی تھی۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے لیکن بالکل بے دست و پا تھے، فرنگی سرکار کے وظیفہ خوار تھے۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بہادر شاہ ظفر کہتے ’’بھئی! انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘ لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔

بہادر شاہ 24 اکتوبر سن 1775 میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لال بائی تھا جوکہ راجپوت تھیں۔ بہادر شاہ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ ان کی تعلیم دلّی میں ہی ہوئی،گھڑ سواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی، ان کے والد اور دادا شاعر تھے، شعرگوئی سے رغبت انھیں ورثے میں ملی۔ انھوں نے شاعری کی تربیت شاہ نصیر سے لی، پھر ان کے جانے کے بعد غالب اور ذوق سے فن شعر گوئی کی اصلاح لیتے رہے۔ بہادر شاہ ظفر کی چار بیگمات تھیں، اختر محل، اشرف محل،تاج محل اور زینت محل۔ زینت محل آخری وقت تک بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے 22 یا 26 بیٹے تھے جن میں مرزا جواں بخت، دارا بخت، مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا فتح الملک زیادہ جانے جاتے تھے۔

بادشاہت کیا تھی بدنصیبی تھی، وہ بس نام کے بادشاہ تھے ان کی حیثیت شطرنج کے بادشاہ کی تھی، وہ خود فرنگی سرکار کا مہرا تھے، تیموری دبدبہ لال قلعے میں محصور ہوگیا تھا، ملک ملکہ کا تھا حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں پنشن انگریز سرکار سے ملتی تھی۔ اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ دوڑیں تو بادشاہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپے، لیکن کرنل ہڈسن نے انھیں گرفتار کیا اور رنگون بھیج دیا تاکہ وہاں بادشاہ پر مقدمہ چلایا جاسکے۔

دلّی فتح ہو چکی تھی اور آل تیمورکا آخری بادشاہ پابہ زنجیر تھا۔ کرنل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے واپس چلنے کو کہا تو بوڑھا بادشاہ خوش ہوگیا، وہ اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ فینس میں بیٹھ گیا، جب خونی دروازہ آیا تو ہڈسن نے شہزادوں کو باہر نکلنے کو کہا اور ایک ایک کر کے چھ کے چھ شہزادوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بوڑھے بادشاہ کو رنگون بھجوا دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنی بیگم زینت محل کے ساتھ درد ناک پل گزارے۔ ہڈسن نے چھ جوان بیٹوں کے سر کاٹ کر ایک طشت میں رکھے اوپر سے کپڑا ڈالا اور بادشاہ سے کہا ’’ہم تمہارے لیے نذر لایا ہے۔‘‘ بادشاہ نے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہ ان کے بیٹوں کے سر تھے۔ اس کے بعد دلّی روتی رہی۔ شاعر ان پر شعر کہتے رہے، میر صاحب کا ایک شعر ہے:

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

بہادر شاہ ظفر اعلیٰ پائے کے شاعر تھے، ان کی بادشاہت کے دوران محل میں شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں، بڑے بڑے نام ور شعرا شرکت کرتے تھے۔ غالب، ذوق، مومن اور دوسرے بہت سے۔ خود بادشاہ بھی شعر کہتے تھے۔ ان کے چار دیوان موجود ہیں۔ ظفر کی شاعری ان کے دل کی کتھا ہے۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور رنج و الم نمایاں نظر آتا ہے، جیسے یہ شعر:

وہ رعایا ہند تباہ ہوئی کہوں کیسے ان سے جفا ہوئی

جسے دیکھا حاکم وقت نے،کیا یہ بھی قابلِ دار ہے

گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ، نہیں دل کو میرے قرار ہے

کروں غم ستم کا میں کیا بیاں میرا غم سے سینہ فگار ہے

یہ کسی نے ظلم کبھی ہے سنا،کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ

وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے غبار ہے

میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

٭……٭

میں نہیں ہوں نغمۂ جانفزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

 اور ذرا یہ شعر دیکھیے جو ظفر کی زندگی کا ہولناک سچ ہے:

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

یا یہ شعر:

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

کوئی آ کے شمع جلائے کیوں کوئی آ کے اشک بہائے کیوں؟

کوئی آ کے پھول چڑھائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

نہ تھا شہر دہلی یہ تھا اک چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن

جو خطاب تھا وہ مٹا دیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ اک مشتِ غبار ہوں

مجھے دفن کر چکو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ اے پری

وہ جو ترا عاشق زار تھا، تہہ خاک اس کو دبا دیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر بیٹوں کے کے ساتھ

پڑھیں:

ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟

تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔

ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔

عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔

تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔

اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔

آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟

پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟

اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔

آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔

خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔ 

ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔

دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔

اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔

آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی: جدید فیچرز کے ساتھ دنیا کا طاقتور ترین اے آئی چیٹ بوٹ
  • مالدیپ نے نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی
  • برطانوی حکومت کا معزول شہزادہ اینڈریو سے آخری فوجی عہدہ واپس لینے کا اعلان
  • شہزادہ ولیم  چچا اینڈریو کے خلاف سخت اقدام پر کیوں خوش ہیں؟
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • میٹا کے سربراہ زکربرگ کا ہالووین لُک وائرل، رومن بادشاہ بن کر انٹری
  • گلگت بلتستان کے بہادر عوام ملک و قوم کا فخر ہیں، وزیراعلیٰ کی ڈوگرا راج سے آزادی کے یوم پر مبارکباد
  • بابراعظم ٹی 20 کے بادشاہ بن گئے، روہت شرما کو پیچھے چھوڑ دیا، نیا ریکارڈ قائم