مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے ،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے،
اس میں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑلینا انکے حقوق کی پامالی ہے۔ یتیم، اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔ ترجمہ:اور یتیموں کو اُن کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو، اور اُن(یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر مت کھاؤ! بے شک یہ بڑا گناہ ہے’’(سورۃ النساء:02) یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئیس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ (سورۃ الدھر)
افسوس کہ لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ارشاد ربانی ہے:جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے(سورۃ النساء)اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے اوریہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اوراگرتم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تووہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے، اوراگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ غالب اورحکمت والا ہے(سورۃالبقرہ 220)
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے، اَحادیث میں یتیم کی پرورش اوراس سے حسن سلوک کے بے شمارفضائل بیان کئے گئے ہیں،رسول اللہ ا ﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، امامُ الانبیاءﷺنے ارشاد فرمایا: ‘‘جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا۔(جامع ترمذی)
رسول اکرم ﷺنے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا۔حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا میں اوریتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت اوردرمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کرکے اشارہ کیا(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرمﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ ‘‘یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین کو کھانا کھلایا کرو’’ (مسند احمد: 7577)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہﷺنے فرمایا: ‘‘اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواوراسے کھلایا کرو’’ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095)
حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن میری حضور اکرم ﷺسے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟’’حضورﷺ نے فرمایا ‘‘وہ تو شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔’’ میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضورﷺنے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیااور فرمایا کہ ‘‘کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ ؓ تمہاری ماں’’(شعب الایمان للبیہقی : 10533 )
حضرت اُم سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے، اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت والی اُنگلی سے اشارہ فرمایا’’ (مسند الحمیدی:861)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہواور سب سے برُا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا’’ (الزہد والرقائق لابن المبارک:654)
آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا تاہے،اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جا تا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق متعین کئے ہیں،اور آج کل یتیموں کے ساتھ ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔ دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب گھروں میں باعزت وہ گھر ہے جس میں یتیم کی عزت ہو(ترمذی 456جلد 2)
عید کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو پریشان حال دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آئے اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں محمد ﷺباپ بن جاؤں اور حضرت عائشہ ؓتیری ماں بن جائے۔ ان تمام قر آن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ یتیم کیسے حقوق رکھتا ہے؟ جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف توجہ کرتے ہیں،اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے یتیم کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت ،پیارکے منتظر ہو تے ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا صاحب حیثیت کی ذمہ داری ہے،بہر حال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نے ارشاد فرمایا رضی اللہ عنہ س طرح ہوں گے اللہ تعالی نے فرمایا رسول اللہ یتیموں کے اور یتیم میں یتیم میں اور یتیم کے کے حقوق کے ساتھ اور ا ن والی ا ہیں کہ ہے اور کا مال
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔