مجلس وحدت مسلمین کے تحت فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی میں یوم احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
احتجاجی مظاہروں سے خطاب میں رہنماؤں نے کہا کہ یمن کے لوگوں کو سلام پیش ہے، ہماری جانیں مزاحمت کے لوگوں پر قربان ہیں، مزاحمت کی قیادت نے حق اور باطل کے درمیان سرخ لکیر کھینچ دی ہے، پاکستان میں سنی شیعہ لڑائی کروانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے تحت کراچی میں مظلوم فلسطینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بعد نماز جمعہ جامع مسجد جیدر کرار اورنگی ٹاون، جامع مسجد جعفریہ نیو کراچی، جامع مسجد ابوالفضل العباس لانڈھی، جامع مسجد باب النجف بفرزون، جامع مسجد دربار حسینی ملیر، جامع مسجد حیدر کرار کھوکراپار، جامع مسجد گلشن حدید کے باہر مظاہرے کئے گئے۔ مرکزی احتجاجی مظاہرہ جامع مسجد خوجہ اثنا عشری کھارادر کے باہر کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں مرکزی رہنما علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ مختار امامی، علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن، علامہ حیات عباس و دیگر نے خطاب کیا۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ صہیونیوں نے آج پورے خطہ کے حالات خراب کر دیئے ہیں، خطے میں فلسطینی مسلمانوں کے خلاف چند خیانت کار حکمرانوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا، صہیونیت نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں بسنے والے یہودی اور عیسائی بھی آج صہیونیت کی انسانیت دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج، اسرائیل انسانیت کا قاتل ہے، پوری دنیا میں مٹھی بھر صہیونیوں نے انسانیت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے، سارے مسلمان مل کر اسرائیل پر ایک گلاس پانی ڈالیں تو اسرائیل ڈوب جائے گا، خطے میں فلسطین کی جنگ صرف فلسطین تک محدود نہیں، یہ آگ ملک میں بھی آئے گی، پاکستان ایٹمی ملک ہے مگر عالمی استعمار کیلئے یہ اسلامی ایمٹی طاقت ہے، خطے میں پاکستان کو اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانی ہوگی، ہمارا خطہ زرخیر ہے مسلم ممالک کو ایک مضبوط اقتصادی، معاشی و تعلیمی نظام پر کام کرنا چاہیئے، مسلم ممالک کو عالمی سطح پر حکمت عملی بنانی ہوگی اور اسے ہمارا ملک لیڈ کرے۔
رہنماؤں نے کہا کہ اللہ ظالم کے خلاف میدان میں نکلنے کو پسند کرتا ہے، مظلوم کے حق میں، ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا اللہ کا محبوب عمل ہے، مظلوم کے ساتھ میں باہر نکلنا کسی پر احسان نہیں، امریکہ کی کوشش ہے کہ دنیا کو یونی پولر ورلڈ کے ساتھ سنکرونائز کیا جائے، مذموم مقاصد کے حصول کے لئے اسرائیل کا بڑا بنایا جانا ضروری ہے، چھوٹی ریاستوں کو اسرائیل کے زیر تسلط دیا جانا طے کیا گیا ہے، یہ جنگ پوری امت مسلمہ کی جنگ ہے، امریکہ و ویسٹ کی پوری کوشش ہے کہ شفٹ آف پاور کو مسلمانوں کے حق میں نہ ہونے دیا جائے، ترکی، شام، ایران، سعودیہ توڑنا صیہونیت کے مقصد کا حصہ ہے، عالم کفر نے شام میں حکومت گرائی اور اب اسرائیل کو اسپینڈ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام کی نیوی، آرمی، ایئر فورس تباہ کردی مگر کوئی نہیں بولا، اسرائیل کے مقابلہ میں مسلمان ممالک کیوں نہیں بولتے، عالم اسلام پر اسرائیل قبضہ کرتا جا رہا ہے اور سب خاموش ہیں، ایک سرخ لکیر کھینچ دی گئی ہے، ایک طرف حق والے ہیں اور دوسری طرف عالم کفر برسر پیکار ہے، ہم فلسطین کے لئے نکلے ہیں تاکہ دنیا پر واضح کر دیا جائے کہ ہم حق والے ہیں، یمن کے لوگوں کو سلام پیش ہے، ہماری جانیں مزاحمت کے لوگوں پر قربان ہیں، مزاحمت کی قیادت نے حق اور باطل کے درمیان سرخ لکیر کھینچ دی ہے، پاکستان میں سنی شیعہ لڑائی کروانے کی سازش کی جا رہی ہے، ہم ظلم کے مقابلے میں ہر مظلوم کے مددگار ہیں اور رہیں گے، ہر ظالم کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے والے ہم ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
خطبہ حج دینے والے شیخ صالح بن عبداللہ کون ہیں؟
شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن محمد بن حمید الخالدی کا شمار عصرِ حاضر کے ان ممتاز علما میں ہوتا ہے جنہوں نے تعلیم، امامت، فقہ، عدلیہ اور مشاورت جیسے اہم میدانوں میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ 1950 میں سعودی عرب کے شہر بریدہ (قصیم) میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی اور 1967 میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ اُم القریٰ میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے 1975 میں شریعت میں بیچلر، 1976 میں فقہ و اصولِ فقہ میں ماسٹرز، اور 1982 میں اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
علمی و تدریسی خدماتتعلیم کی تکمیل کے بعد شیخ صالح جامعہ اُم القریٰ میں تدریسی شعبے سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے لیکچرار، اسسٹنٹ پروفیسر، اور بعد ازاں شعبہ معیشتِ اسلامی کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کی قابلیت و قیادت کی بنیاد پر انہیں اعلیٰ اسلامی مطالعات کے مرکز کا نگران اور کلیہ الشریعہ میں اعلیٰ تعلیمات کے معاون سربراہ، پھر اسی کلیہ کے ڈین کے منصب پر فائز کیا گیا۔
شیخ صالح کا مسجد الحرام سے تعلق 1983 میں امامت سے شروع ہوا اور اگلے ہی برس انہیں باضابطہ امام و خطیب مقرر کیا گیا۔ وہ مسجد الحرام میں امامت سنبھالنے والے پہلے عالم ہیں جن کے پاس فقہ میں پی ایچ ڈی کی سند تھی۔ بعد ازاں انہیں حرمین شریفین کے امور کے نائبِ اعلیٰ اور 2001 میں صدرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا گیا۔
مشاورتی و عدالتی خدماتان کی مشاورتی خدمات کا آغاز 1994 میں مجلس الشورى (مجلسِ مشاورت) کی رکنیت سے ہوا۔ 2002 میں شاہی فرمان کے تحت وہ مجلس الشورى کے صدر مقرر ہوئے۔ 2009 میں انہیں اعلیٰ مجلسِ عدالت (المجلس الأعلى للقضاء) کا سربراہ مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے شیخ صالح اللحیدان کی جگہ سنبھالی۔ 2012 میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر اس منصب سے سبکدوشی اختیار کی اور انہیں شاہی دیوان میں وزیرِ مرتبہ مشیر مقرر کیا گیا۔
2007 میں انہیں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے تحت قائم بین الاقوامی اسلامی فقہی مجلس کا صدر مقرر کیا گیا۔ مسجد الحرام میں تدریس و فتویٰ کی ذمہ داریاں بھی شاہی منظوری سے ان کے سپرد کی گئیں۔
علمی خدماتشیخ صالح نے متعدد علمی کتابیں تصنیف کیں، بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، اور خطابات و دروس کے ذریعے علمی افق پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کا علمی اسلوب فقہ، شریعت، معاشیات اور سماجی علوم کے امتزاج سے عبارت ہے، جو عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی فکر کی رہنمائی کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امام کعبہ خطبہ حج شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن محمد بن حمید الخالدی