UrduPoint:
2025-04-25@02:23:45 GMT

پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) حالیہ چند روز میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے، جس سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے نہ صرف معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی داؤ پر لگ سکتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔

(جاری ہے)

روزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔

گزشتہ روز پنجاب کے 10 اضلاع سے 1437 افراد کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد افغانستان روانہ کیا گیا۔

پشاور میں مقیم افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے ڈیڈلائن سے قبل ہی پاکستان چھوڑ دیا تھا، لیکن بہت سے تاجروں کو یقین تھا کہ حالیہ ڈیڈلائن میں توسیع کی جائے گی۔ تاہم اب کاروباری طبقہ بھی واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

افغان مہاجرین کی واپسی سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیے، جائیدادیں خریدیں، لیکن اچانک انہیں جانے کا کہنا دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے زیادہ تر کاروبار افغان تاجروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کے اچانک انخلا سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کی گولڈ مارکیٹ میں 80 فیصد کاروبار افغان تاجروں کے پاس ہے، جبکہ کرنسی ایکسچینج، کارپیٹ، جیولری، قیمتی پتھروں، ہوٹلوں، الیکٹرانکس اور کپڑوں کے کاروبار میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔

پاک-افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے، '' افغان تاجروں نے کراچی اور لاہور میں بڑے صنعتی یونٹس قائم کیے، جن سے سینکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ہے۔ ان کے جانے سے نہ صرف سرمایہ کاری ختم ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے۔‘‘ حکومتی پالیسی پر تنقید

تاجر برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جیسے سرحد چیمبر، پاک-افغان جائنٹ چیمبر اور افغان تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔

عبدالجلیل جان کے مطابق، ''حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک جامع پالیسی بنائی جاتی تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ ضیاالحق سرحدی نے تجویز دی کہ سرمایہ کاری کرنے والے افغان تاجروں کو ریلیف دیا جائے، جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا کاروبار افغانستان منتقل کر سکیں۔ سیاسی و معاشرتی خدشات

ماہرین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے بدامنی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال، جہاں انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان تاجروں کو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

مزید برآں افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے۔

پشاور میں افغان تاجر اتحاد کے صدر حاجی نصیب شاہ کا کہنا تھا، ''ہمارا 40 سالہ کاروبار ایک ماہ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہمارے بچوں کی تعلیم یہاں جاری ہے، جبکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘‘ ثقافتی و سماجی نقصان

خیبر پختونخوا میں افغان کمیونٹی کئی دہائیوں سے معاشی اور سماجی طور پر فعال ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی شادیاں کیں اور ان کی تیسری نسل پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی جبری واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان مہاجرین کی واپسی افغان تاجروں سرمایہ کاری کے مطابق واپسی سے کا کہنا

پڑھیں:

ملکی بقا کیلئے ہم سب ایک پیج پر ہیں، حکومت اور اپوزیشن ملکر بھارت کو جواب دیں: حافظ نعیم الرحمان 

پشاور (ڈیلی پاکستان آن لائن )امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے پہلگام واقعے کے بعد حکومت اور اپوزیشن سے یکجا ہوکر بھارت کو جواب دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لاکھ اختلاف صحیح لیکن ملکی بقا کے لئے ہم سب ایک پیج پر ہیں، حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے، اپوزیشن کو کسی سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن پاکستان سے اختلاف نہیں ہوسکتا، بھارت کو مکمل یکجہتی کےساتھ جواب دیا جائے، حکومت بھی جرات کا مظاہرہ کرے۔
ڈان نیوز کے مطابق پشاور میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام آل تاجران غزہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ کشمیر میں پیش آنے والے سانحے میں بھارت کے خفیہ ادارے ملوث ہیں، مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے مودی سامراج کو مسترد کردیا ہے اس لئے اب طاقت کا استعمال کیا جا ئےگا۔حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں فریقین کی رضامندی سے ہی منسوخ ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے تاجروں کا شکر گزار ہوں، اسرائیل افواج بچوں کو نشانہ بنا رہی ہیں نسل کشی کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے جو اسرائیل کو مسلمانوں کو مارنے کا کہتا ہے، انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے پشت پر کھڑا ہے جبکہ مسلمان خاموش ہیں، اس لئے بچے شہید ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا،انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے، انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ اپنی مصنوعات بنائیں اور کارخانے لگائیں تاکہ ہم غیر مسلموں کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ تاجر اپنی مصنوعات کے قیمتیں بھی مناسب رکھیں تاکہ لوگ خرید سکیں اس سے پا کستان کو بھی فائدہ ہوگا۔حافظ نعیم الرحمٰن نے مزید کہا کہ علمائے کرام کے جہاد کے اعلان کا مذاق نہ اڑایا جائے، ایک ایک بندہ اگر بندوق اٹھا نہیں سکتا تو اپنے حکمرانوں کو تو مجبور کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 26 اپریل کی ہڑتال کسی کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اسرائیل کے خلاف ہے۔
قبل ازیں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام آل تاجران غزہ جرگہ میں خیبر پختونخوا کے تاجروں کے نمائندوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر سرحد چیمبر آف کانفرنس کے صدر فضل مقیم نے خیبر پختونخوا کے تاجروں کی جانب سے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے 26 اپریل کو جماعت اسلامی کی ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا۔

بھارتی شہری 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑ دیں،سکھ یاتریوں پر ویزہ پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوگا،نائب وزیر اعظم

مزید :

متعلقہ مضامین

  • ملکی بقا کیلئے ہم سب ایک پیج پر ہیں، حکومت اور اپوزیشن ملکر بھارت کو جواب دیں: حافظ نعیم الرحمان 
  • کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
  • خیبر پختونخوا اسمبلی، افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور
  • کلبھوشن جیسا ایک اور بندہ پاکستان نے ایران افغان سرحد پر پکڑا ہے،خواجہ آصف کا انکشاف
  • افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • پشاور: افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور، افغان پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ
  • کراچی کے تاجروں کا 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کی حمایت کا اعلان
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار
  • امریکا سے معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟