ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں؛ محمد اورنگزیب
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ویب ڈیسک : وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ کسٹمز میں فیس لیس ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی، مقصدہے چوری یا رشوت بازاری نہ ہو سکے۔
محمد اورنگزیب نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نتخواہ دار طبقے پر ٹیکس کو بخوبی سمجھتا ہوں، ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں، ایسا طبقہ جس کی جائیداد یہاں ہے نہ وہاں اس کو بھی پیچیدہ ٹیکس نظام میں الجھایا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم رشوت لے رہے ہیں تو کوئی ہمیں رشوت دے رہا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ آپ رشوت دینا بند کر دیں، وزیرِ اعظم اس ہم مسئلے پر سنجیدہ ہیں، حوصلہ کریں اور رشوت خوروں کی باتوں میں نہ آئیں، کسٹمز میں فیس لیس ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی، مقصدہے چوری یا رشوت بازاری نہ ہو سکے۔
اسد عمر نے بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے فیصلے کا تمسخر اڑانا شروع کردیا
انہوں نے کہا کہ تاجروں کے جائز مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، صنعت کی ترقی ملکی ترقی کا باعث ہے، معاشی استحکام کے لیے اپنی درست سمت کا تعین کرنا ضروری ہوتا ہے، ہمیں صنعتی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں، سرمایہ کاروں کو سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں، مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار میں استحکام آ رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں دو ججز کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن اجلاس
محمد اورنگزیب نے کہا کہ انڈسٹری کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا، ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے، ہم عوام کے خدمت گزار ہیں، معاشی استحکام کے لیے مہنگائی کا کم ہونا لازمی تھا، عام آدمی کی آسانی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر ہفتے اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، اسٹاک مارکیٹ اوپر نیچے ہوتی رہے گی، اسٹاک مارکیٹ اوپر نیچے ہونے میں کچھ وجوہات بیرونی ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم صحیح سمت میں چل رہے ہیں یا نہیں؟2028ء کے بعد ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی بیلا روس کے صدر سے ملاقات، اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار میں استحکام آرہا ہے، مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، ہر سیکٹر کو برآمدات کرنا ہوں گی، ہم درست سمت کی جانب گامزن ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریکوڈک کا ایک پروجیکٹ بہت اہم ہے، بلوچستان میں ریکوڈک پروجیکٹ ہمارا خواب ہے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: محمد اورنگزیب نے نے کہا کہ انہوں نے رہے ہیں کے لیے کام کر
پڑھیں:
صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
پاکستان کے مسلسل بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں صدر آصف علی زرداری ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے جمہوری استحکام، صوبائی خودمختاری اور قومی مفاہمت میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی 2024 میں ایوان صدر میں واپسی صرف ایک سیاسی تقرری نہیں، بلکہ اس عزم کی تجدید ہے جو وہ ہمیشہ جمہوریت، آئین اور وفاقی نظام کے لیے رکھتے آئے ہیں۔
صدر زرداری کا سیاسی سفر سہولت پر مبنی نہیں بلکہ قربانی اور استقامت سے بھرا ہوا ہے، انہوں نے گیارہ سال سے زائد سیاسی انتقام پر مبنی بغیر کسی سزا کے قید کاٹی لیکن کبھی تلخی کو اپنی پہچان نہیں بننے دیا، وہ ہمیشہ بردباری، مفاہمت اور آئینی اداروں کے احترام کے حامی رہے۔
2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد جب پورا ملک سوگوار تھا تو آصف زرداری نے نہ صرف پارٹی بلکہ پورے پاکستان کو متحد رکھا، ان کے تاریخی الفاظ ’’پاکستان کھپے‘‘ نے جذبات کے بجائے وطن کی سالمیت کو ترجیح دی۔
یہ وہی وژن تھا جسے بینظیر بھٹو نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے فروغ دیا، جس کا عملی مظاہرہ چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) کی صورت میں 2006 میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔
جب صدر زرداری 2008 میں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اسی وژن کو عملی جامہ پہنایا، ان کی قیادت میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی اصلاح نہیں تھی بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی بحالی تھی۔
اس ترمیم کے ذریعے انہوں نے صدارت کے اختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمان کو واپس دیے اور آمریت کے دور کی آئینی بگاڑ کو درست کیا۔
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختار کیا، نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے بلکہ ترقیاتی اور مالیاتی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بھی پہلی بار، صوبے اپنے وسائل اور ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کے قابل ہوئے، یہ صرف آئینی تقاضا نہیں تھا بلکہ حقیقی وفاقیت کی طرف عملی قدم تھا۔
صدر زرداری کا وژن صرف سیاسی نہیں معاشی میدان میں بھی انقلابی ثابت ہوا، ان کی قیادت میں زرعی شعبے کو خصوصی ترجیح دی گئی۔
کسان دوست پالیسیوں، بروقت بیجوں اور کھاد کی فراہمی، منصفانہ نرخوں، اور زرعی قرضوں کی فراہمی نے ملک بھر میں زرعی پیداوار میں تاریخی اضافہ کیا۔
ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف ایک سال کے اندر پاکستان گندم درآمد کرنے والے ملک سے گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا، یہ صرف ایک معیشتی کامیابی نہیں بلکہ کاشتکاروں کے اعتماد کی بحالی اور قومی غذائی سلامتی کی ضمانت تھی۔
2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران صدر زرداری کی قیادت، نگرانی اور قومی رابطے کی صلاحیت نے ثابت کیا کہ وہ آزمائش میں بھی قوم کے ساتھ کھڑے رہنے والے لیڈر ہیں۔
ان سیلابوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں اور بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے لیکن زرداری صاحب نے ریلیف کیمپوں، طبی امداد اور بحالی کے عمل کو ذاتی طور پر مانیٹر کیا۔
انہوں نے قومی اداروں، صوبائی حکومتوں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ریلیف کے کاموں کو مؤثر اور منظم رکھا۔
اسی دوران انہوں نے معاشرے کے محروم طبقے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا منصوبہ تھا۔
یہ پروگرام خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے تھا، جن میں سے لاکھوں کو پہلی بار شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ اور مالی خودمختاری حاصل ہوئی، اس پروگرام نے صرف غربت کم نہیں کی بلکہ خواتین کی حیثیت کو بدلا اور پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔
صدر زرداری کا طرزِ سیاست ہمیشہ بردباری، مکالمے اور جمہوری تسلسل پر مبنی رہا ہے، ان کی قیادت ٹکراؤ پر نہیں بلکہ مشترکہ قومی مفاد پر استوار ہے۔
انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کی مفاہمتی سیاست کو جاری رکھا اور مخالفین کو دشمن کے بجائے مکالمہ کرنے والا فریق سمجھا۔
ان کے پہلے دورِ صدارت میں ہی پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا پُرامن جمہوری انتقالِ اقتدار دیکھا، جب ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل کر کے اگلی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا جو صرف جمہوریت پر یقین اور آئینی عملداری کی بدولت ممکن ہوا۔
آج 2025 میں جب وہ دوبارہ ایوانِ صدر میں موجود ہیں تو ان کا وژن وہی ہے۔ وفاق کو مضبوط کرنا، صوبوں کو بااختیار بنانا، غریب اور محروم طبقات کی فلاح اور آئینی نظام کا استحکام۔
انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی سیاسی قوتوں کو مکالمے کی دعوت دی ہے، تاکہ ملک کو محاذ آرائی سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
ان کی مسکراہٹ جو ہر کٹھن وقت میں برقرار رہتی ہے! صرف ذاتی مزاج کی عکاس نہیں بلکہ سیاسی بصیرت، برداشت اور یقین کی علامت ہے۔
وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو اقتدار کو ذاتی اختیار کے لیے نہیں، بلکہ آئینی اداروں، پارلیمان اور عوام کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آج جب ہم 26 جولائی کو صدر آصف علی زرداری کی سالگرہ مناتے ہیں تو ہم صرف ایک سیاستدان کو نہیں بلکہ ایک دوراندیش رہنما کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو وفاقی ہم آہنگی، جمہوری اقدار اور عوامی خدمت کے استعارے بن چکے ہیں۔
سالگرہ مبارک ہو، جنابِ صدر! آپ کا وژن پاکستان کو آئینی، بااختیار اور خوشحال بنانے کی راہ پر قائم رکھے۔
تحریر: شازیہ مری، مرکزی اطلاعات سیکریٹری پی پی پی-پی، ممبر قومی اسمبلی