پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کیساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر میں برسر اقتدار جماعت نیشنل کانفرنس نے نئے وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ یہ اقدام پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ہدایت پر اُٹھایا گیا ہے۔ پارٹی کی ترجمان افراء جان نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس کے تین ارکان اسمبلی ارجن سنگھ راجو، ریاض احمد خان اور ہلال اکبر لون نے عدالت عظمیٰ میں رِٹ پٹیشن دائر کی ہے۔ اس طرح نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی دوسری سیاسی جماعت بن گئی ہے جس نے متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ اس سے قبل الطاف احمد بخاری کی قیادت والی جموں کشمیر اپنی پارٹی نے بھی عرضی دائر کی تھی۔

ادھر اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے بھی وقف قانون کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے ہفتے کو سرینگر میں اپنے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں کارکنان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کے ساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ ان کے بقول وقف (ترمیمی) قانون مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کو قابل قبول نہیں اور اس کا پارلیمان میں خفیہ طریقے سے پاس ہونا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف غیر جمہوری عمل نہیں بلکہ اقلیتوں کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے، جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔

دریں اثناء پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ سے رکن اسمبلی سجاد غنی لون نے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں وقف قانون پر سنجیدہ بحث سے بچنے کے لئے بدنظمی پیدا کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپیکر نے زیر سماعت ہونے کی بنیاد پر وقف بل پر بحث کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ایوان میں تحریک التوا پیش کی گئی تھی۔ سجاد غنی لون کے مطابق جب مذہبی معاملات کے دفاع کی بات آئی تو نیشنل کانفرنس نے خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر رکاوٹ تھے، تو انہیں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے عملی اقدام کے بجائے تماشہ چُنا۔ یاد رہے کہ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف قانون پر شدید ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں بحث کا مطالبہ کرتے رہے، جو اسپیکر نے مسترد کر دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نیشنل کانفرنس انہوں نے

پڑھیں:

جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-5
جاوید الرحمن ترابی
برصغیر کی تقسیم ِ ہند 1947ء کے دوران جہاں آزادی کا سورج طلوع ہوا، وہیں برصغیر کے کئی خطوں میں انسانی المیے نے جنم لیا۔ ان میں سب سے المناک سانحہ ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں اکتوبر۔ نومبر 1947ء کے دوران پیش آیا، جسے تاریخ میں ’’جموں قتل ِ عام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس المیے میں لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ظلم و درندگی کا نشانہ بنے، اور ریاست کی مسلم اکثریت کو منظم منصوبے کے تحت اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔

تاریخی پس ِ منظر: ریاستی ساخت اور تقسیم ِ ہند کا تناظر؛ ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت وجود میں آئی، جب برطانوی راج نے یہ خطہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں تھی، مگر سیاسی و انتظامی طاقت ڈوگرہ ہندو اشرافیہ کے پاس تھی۔ (ڈاکٹر عبد الواحد وانی، Kashmir: Struggle for Freedom, 1989)

تقسیم برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد (19 جولائی 1947ء) منظور کی۔ جو مسلمانان جموں و کشمیر اور تقسیم کشمیر کے اصول کے عین مطابق تھی لیکن بھارت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے ایک جعلی دستاویز کے ذریعہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط قائم کرنا چاہا اور کشمیر پر قبضہ کیا جس کے بارے میں پروفیسر الیف الدین ترابی اپنی کتاب ’’مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا بھارتی دعویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں: بھارت کے ساتھ ریاست ِ جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) جعلی تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ اس وقت جموں سے فرار ہو چکے تھے، اور دستخط شدہ دستاویز کا کوئی اصلی ریکارڈ دستیاب نہیں‘‘۔ (ص 156–155 اور ان کا یہ موقف برطانوی مورخ پروفیسر السٹر لیمب) کی کتاب ’’Kashmir: The Disputed Legacy‘‘ سے بھی تقویت پاتا ہے: 26 اکتوبر 1947ء کی الحاقی دستاویز کبھی اصلی شکل میں موجود نہیں تھی۔ یہ بعد میں بھارت نے گھڑی تاکہ فوجی قبضے کو قانونی رنگ دیا جا سکے‘‘۔ (Lamb, 1994, pp. 42-45) پروفیسر ترابی لکھتے ہیں: ’’یہ اقدام نہ صرف تقسیم ِ ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی تھی بلکہ برطانوی نوآبادیاتی اثر کے زیر ِ سایہ تیار کی گئی سیاسی سازش تھی جس کا مقصد کشمیر میں مسلم اکثریت کو حقِ خودارادیت سے محروم کرنا تھا‘‘۔ (ص 158) جموں قتل ِ عام 1947 ایک منظم انسانی المیہ، اکتوبر اور نومبر 1947ء کے دوران ریاست کے مختلف علاقوں، خصوصاً جموں، اکھنور، راجوری، کٹھوعہ، سانبہ اور میرپور میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔

ڈوگرہ فوج، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اکالی دل کے عسکری جتھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا، اور ہزاروں خاندانوں کو پاکستان کی سرحدوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔ جے کے ریڈی (ایڈیٹر، Kashmir Times) کی شہادت کے مطابق: ’’میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کی طرف جانے والے مہاجرین پر ڈوگرہ سپاہیوں کی فائرنگ دیکھی۔ جموں کے جس ہوٹل میں میں ٹھیرا تھا، وہاں سے ایک رات میں سینتالیس گاؤں جلتے دیکھے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور آگ تھی‘‘۔ (اویس بلال، جموں کے روشن ستارے, ص 41)

پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں: ’’ریاست کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ پورے جموں میں مسلمانوں کے صفایا کی کوشش کی گئی۔ حکومت ِ ریاست اس منصوبے کی شریک تھی‘‘۔ (Inside Kashmir, 1951, p. 290)

اخبار ’’The Statesman‘‘ (نومبر 1947) کے مطابق: ’’جموں کی مسلمان آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ نومبر کے آخر تک اس کا بڑا حصہ ختم ہو چکا تھا، اور دو لاکھ افراد کا نام و نشان مٹ گیا‘‘۔ 26 اکتوبر 1947ء کے بعد بھارت نے ریاست میں فوجی مداخلت کی اور اسے ’’عارضی الحاق‘‘ قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کیا، اور سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) کے ذریعے کشمیری عوام کے حق ِ خود ارادیت کا وعدہ کیا — جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔

آئینی بحران: بھارت نے ریاستی قبضے کو آئینی رنگ دینے کے لیے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا، جس کے تحت کشمیر کو محدود خودمختاری ملی۔ مگر 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر اسے بھی ختم کر دیا اور کشمیر کو عملی طور پر ایک جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 1947 کے بعد سے آج تک کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ریاست میں قتل ِ عام، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم عام ہیں۔ (UN OHCHR Report on Kashmir, 2018) بین الاقوامی تحقیق اور قانونی تناظرمیں ڈاکٹر جوزف کوربیل (Danger in Kashmir, 1954) کے مطابق: ’’جموں میں ہونے والا قتل ِ عام ایک منظم ریاستی جرم تھا۔ جس نے جنوبی ایشیا میں دائمی بحران کی بنیاد رکھی‘‘۔

رحمان، جہانگیر اور گردازی (Global Legal Studies Review, 2021): ’’جموں کا قتل ِ عام Genocide Convention (1948) کے آرٹیکل II کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ ISSI Issue Brief (2023) میں کہا گیا: ’’یہ سانحہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے کم یاد رکھا جانے والا مگر سب سے زیادہ منظم نسل کشی کا واقعہ ہے‘‘۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کشمیری عوام نے اپنی آزادی، عزت اور شناخت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں
  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • اسلام آباد: جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسمین ملک کی اہلیہ مشال ملک پریس کانفرنس کررہی ہیں
  • پی ٹی آئی نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ چیلنج کردیا
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • پی ٹی آئی نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 چیلنج کردیا، کل سماعت
  • کے پی میں پی ٹی آئی کو دوسرا بڑا جھٹکا، بار کونسل الیکشن میں بھی شکست
  • پاریش راول نے نیشنل ایوارڈز سے متعلق بڑا انکشاف کردیا
  • آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہو گیا
  • آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہوگیا ہے، وزیرِ قانون آزاد کشمیر