جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟
مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔
انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔
حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔
جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔
جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔
لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔
فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔
ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔
یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟
میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔
دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔
شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔
اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔
ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔
اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جھوٹی یاد کی یاد یاد داشتوں نہیں ہوتی ہوتی ہیں یادوں کو کرتا ہے ہوا تھا
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
 سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
 
 نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
 
 غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
 
 غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
 
 امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
 
 تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
 
 بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
 
 دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
 
 تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔