فیروز خان کے عالمی منصوبوں سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
فیروز خان کے بین الاقوامی منصوبوں سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا صارفین کا شدید ردعمل سامنے آگیا۔
پاکستان کے معروف اداکار فیروز خان ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئے ہیں، اپنے متنازع بیانات اور منفرد انداز کے باعث وہ اکثر و بیشتر میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائے رہتے ہیں، اس بار ان کی خبروں میں آنے کی وجہ ایک بین الاقوامی انٹرویو ہے، جس میں انہوں نے اپنے عالمی سطح پر ملنے والے منصوبوں پر بات کی۔
اداکار نے دعویٰ کیا کہ انہیں متعدد بین الاقوامی فلموں اور منصوبوں کی آفرز موصول ہو رہی ہیں۔
انٹرویو میں اداکار کے اندازِ گفتگو، لہجے اور دعوؤں نے سوشل میڈیا صارفین کو بھڑکا دیا، ان کے انگریزی لہجے کو جعلی اور اندازِ گفتگو کو خود پسندانہ قرار دیا جا رہا ہے، کئی صارفین نے سخت الفاظ میں ان پر تنقید کی۔
ایک صارف نے کہا خدارا، کوئی ان کی مدد کرے، یہ شخص شدید نارسیسسٹک (خود پسندی) کا شکار ہے، ایک اور نے کہا کہ اس کی تھراپی کا خرچ میں دے دیتا ہوں، بس کسی ماہرِ نفسیات کے پاس لے جائیں۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ جب بھی پاکستانی فنکاروں کو مقامی سطح پر کام نہیں ملتا، وہ بھارت یا کسی بین الاقوامی ملک کی طرف رخ کر لیتے ہیں اور جھوٹے دعوے کرنے لگتے ہیں۔
بعض کا کہنا ہے کہ کیا یہ صرف مجھے لگتا ہے یا واقعی ہر کوئی ایک سطحی، بناوٹی اور خود پر فخر کرنے والا شخص دیکھ رہا ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ فیروز خان کو عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہو، اس سے قبل بھی وہ کئی بار اپنے بیانات، ازدواجی زندگی کے تنازعات اور دیگر حرکات کی وجہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بین الاقوامی سوشل میڈیا فیروز خان
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی ہولناک پامالی اور علاقائی امن و استحکام پر حملہ قرار دیا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ دنیا بھر میں ثالثی اور مذاکراتی عمل کی ساکھ پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی حمایت یافتہ ثالثی میں شامل فریقین کو نشانہ بنانے سے قطر کے بطور ثالث اور فروغ امن کے لیے کام کرنے والے کردار کی حیثیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ Tweet URLانہوں نے کہا کہ ایسے شہریوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے جو براہِ راست جنگی کارروائیوں میں شامل نہ ہوں۔
(جاری ہے)
جب ممالک جنگ کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے تمام شہریوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ حماس کا وفد قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے موجود تھا، جو کہ امن کی جانب نہایت اہم قدم ہے۔ہائی کمشنر نے کہا کہ 'ہمارے دل غزہ کے شہریوں، اسرائیلی یرغمالیوں، ان کے پیاروں اور ان افراد کے لیے رنجیدہ ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں ناجائز قید کاٹ رہے ہیں۔
ماورائے قانون جنگ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں شہریوں کے لیے بے پایاں مظالم اور تکالیف سے بھرپور مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رکن ممالک کو امن کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔'عالمی برادری سے اپیلوولکر ترک نے کہا کہ دوحہ پر اسرائیلی حملہ اس وقت پیش آیا ہے جب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی امید ماند پڑ رہی ہے جبکہ یہی حل پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔
شمالی غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو بیدخل کیا جا رہا ہے جبکہ مشرقی یروشلم میں آبادی کاری منصوبہ جاری ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے حکومتی وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے ہولناک دہشت گرد حملوں اور ان کے بعد پھیلنے والے تشدد کو تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔
اب اس قتل و غارت کو رک جانا چاہیے۔رکن ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کریں اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کریں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ہتھیار شامل ہیں جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستوں کو جنگ بندی، تمام یرغمالیوں اور ناجائز حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر ترسیل کے لیے بھرپور دباؤ ڈالنا چاہیے۔
ریاستی دہشت گردیکونسل سے خطاب کرتے ہوئے قطر کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی المسند نے کہا کہ اسرائیلی حملہ نہ صرف اُن کے ملک کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی تھا اور یہ عمل ریاستی دہشت گردی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد قطری ثالثی نے قابلِ قدر نتائج دیے جن میں 135 یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی شامل ہے جس سے اسرائیلی خاندانوں میں اعتماد اور امید کی بحالی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کو نشانہ بنانا نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے مزید جانیں بچانے اور امن کے حصول کے امکانات کو بھی نقصان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حملہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وسیع مہم کا حصہ ہے۔
یہ ایک ایسی خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو خطے و دنیا کو بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی کی طرف دھکیل سکتی ہے اور جو کچھ دوحہ میں ہوا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔