WE News:
2025-04-25@05:14:49 GMT

مرزا رسول جوہؔر

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

ہم سب دوست اس بات پر متفق ہیں مرزا رسول جوہؔر کم از کم 50 کے پیٹے میں ہیں مگر وہ خود کو نہ صرف سفید بالوں والا نوجوان سمجھتے ہیں بلکہ اپنی تھوڑی بہت میڈیکلی خفت کا ذمہ دار شوگر کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ انسولین کا انجیکشن انہیں رات گئے تک تو ہشاش بشاش رکھتا ہے مگر اندھیرا گہرا ہوتے ہی شوگر تمام اعضا کو معطل کرکے رکھ دیتی ہے۔

مرزا صاحب غالباً سات برس قبل میدانِ صحافت میں آئے تھے جب وہ بجلی میٹر کی ریڈنگ پیچھے کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور جبری برطرف کردیے گئے۔ ان کے معاشی حالات سے باخبر افسر تعلقات عامہ نے خاص تعلقات استعمال کرتے ہوئے انہیں اخبار میں پروف ریڈر رکھوا دیا۔ یوں چند ہی دنوں میں وہ میٹر ریڈر سے پروف ریڈر بن گئے۔

ان کا پروف شدہ مسودہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دال کھاتے ہوئے اس میں بار بار کنکر آ جائیں۔ ابھی پروف ریڈنگ میں ان کی مہارت کا سکہ بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ انہیں بطور سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بیٹھنے کا موقع مل گیا۔

قصہ یوں ہے کہ ایک نیا اخبار مارکیٹ میں آنے سے سب ایڈیٹرز کا ایک باغی جتھہ وہاں چلا گیا لہٰذا چند ٹرینی بھرتی کرکے اور مرزا رسول جوہؔر کی عمر رسیدگی کے دھوکے میں انہیں تجربہ کار سمجھتے ہوئے نئے میدان میں اتار دیا گیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ ان کا حوصلہ اس پرچم کی طرح بلند رہا جسے ہر روز بلند کردیا جاتا اور ہر شام کو اتار لیا جاتا ہے۔

صبح سے شام تک مسلسل اتار چڑھاؤ اور دھینگا مشتی میں انہوں نے سب ایڈیٹنگ پر اپنا ہاتھ صاف کرلیا۔ ان کی بنائی ہوئی چند یادگار سرخیاں آپ سے چھپانا مرزا رسول جوہؔر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ ان سرخیوں نے انہیں اسٹاف میں یکدم مشہور کردیا تھا۔ نمونے کی چندسرخیاں:

’شیخ رشید نے گھر گھر الیکشن مہم کا آغاز شروع کر دیا‘
’آفریدی کی فلک بوس چھکوں اور زمین بوس چوکوں کی مدد سے سینچری‘
’نرگس عمرہ سے لوٹ آئیں، آج الحمرا میں پرفارم کریں گی‘
’برڈ فلو سے 4 چینی باشندے جاںبحق‘

جس روز آخری سرخی اخبار میں شائع ہوئی تو قارئین نے فون کرکے شکایت کی کہ جاں بحق صرف مسلمانوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے ان کی سرزنش کی تو مرزا رسول جوہؔر نے دل ہی دل میں ادارہ چھوڑ دینے کی ٹھان لی تھی اور ڈیڑھ ماہ بعد ہی بالوں میں اتری چاندی کی بدولت دوسرے روزنامے میں رپورٹر ہو گئے۔

مرزا کی بطور رپورٹر تقرری بذات خود بریکنگ نیوز تھی مگر ٹی وی چینلز بہت بعد میں آئے۔ بہر کیف یہاں بھی صورتحال حسب سابق ہی رہی انہیں ایک سیاسی شخصیت کا انٹرویو کرنے کا ٹاسک ملا تو مرزا صاحب نے سوالنامہ تیار کیا اور فوٹو گرافر کے ہمراہ انٹرویو لینے پہنچ گئے چند ابتدائی اہم سوالات یوں تھے:

سوال: موجودہ سیاسی حالات میں قائداعظم کے 14 نکات کی اہمیت و افادیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
سوال: اگر آپ اس مرتبہ بھی الیکشن ہار گئے تو اسے دھاندلی قرار دیں گے یا اپنی پرانی پارٹی میں واپس چلے جائیں گے؟
سوال: جونیجو کی نئی روشنی اسکیم کا مشرف کی روشن خیالی سے موازنہ کریں؟

اس پر وہ صاحب زچ ہو کر بولے یا تو آپ انٹرویو کی تیاری نہیں کرکے آئے یا پھر آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ مرزا رسول جوہؔر نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور سوالات کا رخ پسند و ناپسند کی جانب موڑتے ہوئے جیب سے ’نجی سوالنامہ‘ نکالا اور بالترتیب سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

نجی سوالات میں تیسرا اور چوتھا سوال جو سوالنامے کے عین مطابق تھے کچھ یوں کیے گئے جو بمعہ جواب درج ہیں:
سوال: ٹی وی دیکھتے ہیں؟
جواب: جی نہیں، ٹی وی دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
سوال: آپ کا پسندیدہ ڈرامہ کون سا ہے؟

اس سوال کے بعد انٹرویو اختتام کو پہنچ گیا۔ مرزا رسول جوہؔر نے فوٹو گرافر سے صورتحال پر خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی اور دفتر میں صاحب انٹرویو سے وقت نہ ملنے کا بہانہ کردیا۔ (یاد رہے اس واقعے بشمول اگلے واقعات کے راوی فوٹو گرافر صاحب ہی ہیں۔ حالانکہ صحافت میں سورس نہیں بتایا جاتا لیکن مرزا رسول جوہؔر کے معاملے میں سورس چھپایا جائے تو واقعات من گھڑت لگتے ہیں)۔

فوٹو گرافر کے مطابق دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے’8 اکتوبر 2005کے زلزلے پر ایک ماہر ارضیات سے انٹرویو کا وقت لیا گیا۔ زلزلے کے حوالے سے کئی سوالات زیر بحث آئے۔ انٹرویو دینے والے صاحب پٹھان تھے اور مشکل سے اردو بولتے تھے۔

مرزا صاحب نے انٹرویو کا اختتام ان الفاظ سے کیا، ان تمام سوالات، ان کے جوابات اور سیرحاصل گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ کا تعلق صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے ہے؟ بقول فوٹو گرافر وہ اس منطق پر پریشان تھے کہ خان صاحب اس اخذ شدہ نتیجے پر برہم ہی نہ ہو جائیں مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب خان صاحب سیٹ سے اٹھ کر آگے بڑھے اور مرزا سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ’آفرین ہے آپ نے خوب پہچانا، میرا تعلق چارسدہ سے ہے۔‘

ایک واقعے کا میں خود عینی شاہد بلکہ کردار ہوں۔ ایک مرتبہ مرزا رسول جوہؔر نے کوئی تقریب کور کی مگر فوٹو گرافر سے ٹائمنگ سیٹ نہ ہو سکی۔ اس پر انہوں نے کسی دوسرے اخبار کے فوٹو گرافر سے تصاویر بذریعہ انٹرنیٹ ای میل کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران مرزا نے میرے سامنے بھی اس فوٹو گرافر کو SMS بھیجے۔

کچھ دیر بعد دوران گفتگو مرزا رسول جوہؔر کو ایک میسج موصول ہوا جسے پڑھتے ہی انہوں نے بڑبڑانا شروع کردیا اور فوٹو گرافر کو سخت برا بھلا (گالیاں) کہا، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’یار اس بے وقوف نے 500 روپے نقد لیکر بھی تصاویر مجھے ای میل کرنے کے بجائے APPکو میل کردی ہیں۔

بولے اب کونAPP (ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان) جا کر تصاویر لائے۔ میں نے انہیں میسج دکھانے کے لیے کہا، فوٹو گرافر کا مسیج پڑھ کر مجھے ہنسی آئی مگر میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے مرزا رسول جوہؔر سے ان کی ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ (بقول ان کے کوڈ) پوچھا اور تصاویر اوپن کرکے انہیں دکھا دیں۔ اس پر مرزا بھی حیران رہ گئے۔ وہ یادگار میسج یوں تھا:
App Ko Tsaveer Mail Kar Di Hain

مرزاAPP یعنی آپ کو ’اے پی پی‘ پڑھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ عقدہ کھلنے پر مرزا نے کھسیانی بلی کی مانند، شوگر کو بطور کھمبا نوچتے ہوئے سارا ملبہ اسی پر گرا دیا۔

مرزا خود کو 18، 20 برس سے صحافت کی دنیا کا راہی بتاتے ہیں مگر یہ پول بھی اس وقت کھل گیا جب مرزا رسول جوہؔر صحافیوں کو پلاٹ ملنے کے لیے 10 سالہ تجربے کی شرط بھی پوری نہ کرسکے لیکن مرزا نہایت ڈھٹائی سے اسے سینیئر صحافیوں کی سازباز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ساتھی پروف ریڈر بھی موجود ہیں جن کے ساتھ انہوں نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا مگر مرزا رسول جوہؔر بضد ہیں کہ ان کے گاؤں والے صحافتی تجربے کو ڈال کر اتنے برس بن ہی جاتے ہیں۔

مرزا رسول جوہؔر کے اور بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں، ان شاء اللہ آئندہ کسی ملاقات پر ان کا ذکر اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی وہ آج کل پرنٹ میڈیا سے تنگ آ کر الیکٹرانک میڈیا میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ’یار زندہ صحبت باقی‘

پسِ تحریر: ان کا اصل نام مرزا رسول گوہر تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو پہلی بار علامہ اقبال کے ’جوابِ شکوہ‘ کا یہ شعر سنتے ہی گوہر کو جوہؔر کرلیا تھا۔

’تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

شیخ رشید علامہ اقبال مرزا رسول جوہؔر مشکورعلی نرگس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علامہ اقبال مرزا رسول جوہ ر مشکورعلی مرزا رسول جوہ ر نے فوٹو گرافر انہوں نے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے: چیئرمین جوائنٹ چیفس

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز میں ابھرتی ٹیکنالوجیز کے دور میں ایٹمی پھیلاو کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں اقوام متحدہ، روس، چین، امریکہ،کینیڈا اور یورپی اداروں کے ماہرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحرشمشاد مرزا نے عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مذاکرات اور تعاون کے تسلسل پر یقین رکھتا ہے، جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مسلسل مکالمے اور تعاون کیلئے پاکستان کے عزم کو اجاگر کیا۔

معروف ترک سوشل میڈیا انفلوئنسر ’ ترکان آتائے‘ نے ’ماریہ بی ‘ سنگین الزام لگا دیا، بڑ ا دعویٰ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا سے زمبابوے کے فضائیہ کمانڈر کی ملاقات
  • پیر پگارا کا افواج پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی، حر جماعت کو دفاع وطن کے لیے تیار رہنے کی ہدایت
  • ثانیہ مرزا نے ماں بننے کے تجربے اور ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر کھل کر بات کی
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی عمرانی ہاؤس آمد ، سردار غلام رسول عمرانی کے چچا کے انتقال پر تعزیت و فاتحہ خوانی کی
  • کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
  • جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے: چیئرمین جوائنٹ چیفس
  • بھارت جوہری خطرات کو کم کرنے کیلئے دوطرفہ اقدامات کرے، جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  •  پاکستان عالمی اسٹریٹجک مسائل پر تعمیری مکالمے کے لیے پرعزم ہے۔جنرل ساحر شمشاد مرزا