امریکی ٹیرف، پاکستانی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے خطرہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اپنی برآمدی پالیسیوں پر نظرِثانی کرنے اور مستقبل کے لیے بہتر حکمت عملی بنانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد ٹیرف سے پاکستانی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کا خدشہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے 29 فیصد جوابی ٹیرف عائد ہونے سے پاکستان کی برآمدات کے حجم میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر تک کمی آسکتی ہے۔ پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ایکسپورٹس میں 25 فیصد کمی ہونے کا خدشہ ہے اور پیداوار متاثر ہونے سے 5 لاکھ ملازمتیں ختم ہو جائیں گی جب کہ صورتحال کا فائدہ بھارت اور بنگلادیش اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے خطرہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اپنی برآمدی پالیسیوں پر نظرِثانی کرنے اور مستقبل کے لیے بہتر حکمت عملی بنانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکہ جانے کے خواہشمند افراد کیلئے بری خبر آگئی
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکہ کا سفر کرنے کے خواہشمند سیاحوں، طلبہ اور کاروباری افراد کے لیے ایک بری خبر , امریکی حکومت نے غیرملکی نان امیگرنٹس کے لیے نئی “ویزا انٹیگریٹی فیس” متعارف کرا دی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق نئی فیس کا اطلاق 1 اکتوبر 2025 سے ہوگا، جس کے تحت ویزا کے خواہشمند افراد کو 250 ڈالر (تقریباً 72 ہزار پاکستانی روپے) اضافی ادا کرنا ہوں گے۔
مزید یہ کہ I-94 فیس (آمد اور روانگی کا ریکارڈ) بھی 6 ڈالر سے بڑھا کر 24 ڈالر کر دی گئی ہے۔یہ تمام فیسیں موجودہ ویزا فیس کے علاوہ ہوں گی۔
نئی “ویزا انٹیگریٹی فیس” کا اطلاق ان تمام افراد پر ہوگا جو سیاحتی، کاروباری، تعلیمی یا دیگر نان امیگرنٹ ویزا کے ذریعے امریکہ آنا چاہتے ہیں۔
اس فیس کا نفاذ “ون بِگ بیوٹی فل بل ایکٹ” کی منظوری کے بعد عمل میں آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے سے ترقی پذیر ممالک کے شہریوں، خصوصاً پاکستانی درخواست گزاروں پر اضافی مالی بوجھ پڑے گا۔