امریکہ میں میٹا پر عدم اعتماد سے متعلق تاریخی مقدمہ ہے کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2025ء) بہت بڑی امریکی سوشل میڈیا کمپنی میٹا، جو فیس بک کی بھی مالک ہے، کے خلاف عدم اعتماد کا مقدمہ پیر 14 اپریل کے روز واشنگٹن کی ایک وفاقی عدالت میں ان الزامات کے تحت شروع ہوا کہ اس کمپنی نے مسابقت کو غیر قانونی طور پر ختم کرنے کے لیے انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کو بھی خرید لیا۔
امریکہ کا فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) چاہتا ہے کہ میٹا جس نے ایک دہائی قبل ان پلیٹ فارمز کو خرید لیا تھا، انہیں واپس کر دے۔ تاہم اس کیس میں دونوں طرف سے اپیلوں کا امکان ہے، اس لیے مقدمے کی سماعت برسوں تک جاری رہنے کی خدشہ ہے۔
ٹیک کمپنیاں آن لائن ہیٹ اسپچیز پر یورپی یونین کے نئے ضابطہ اخلاق پر متفق
میٹا نے عدالت میں کیا جواب دیا؟ابتدائی سماعت کے دوران ایف ٹی سی کے اٹارنی ڈینیل میتھیسن نے کہا کہ صارفین کے اطمینان میں کمی آنے کے باوجود میٹا نے بہت زیادہ منافع کمایا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ میٹا نے انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو خرید کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ’حفاظتی خندق کھود لی ہے‘ کیونکہ کمپنی کو اس بات کا خدشہ تھا کہ یہ پلیٹ فارمز میٹا کے سوشل میڈیا مارکیٹ پر غلبہ حاصل کر لینے کے لیے خطرہ تھے۔میتھیسن نے کہا، ’’ہم انہیں اس بات کا موقع دیں گے کہ وہ بھی اپنا موقف واضح کریں۔
‘‘ادھر میٹا کے سربراہ مارک زکربرگ نے پیر کو بعد دوپہر زیادہ وقت میتھیسن کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے عدالت میں گزارا۔
آسٹریلیا: سولہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کا منصوبہ
میٹا کے وکیل مارک ہانسن نے کہا کہ وفاقی ٹریڈ کمیشن ایف ٹی سی اپنے دلائل کے طور پر ایسی باتوں پر انحصار کر رہا ہے جو غلط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میٹا میں کافی مسابقت پائی جاتی ہے اور اس نے دونوں ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس کو حاصل کرنے کے بعد سے انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی کارکردگی کو کافی بہتر بھی بنایا ہے۔مارک ہانسن نے کہا، ’’مختصر یہ کہ یہ مقدمہ گمراہ کن ہے۔ بہرحال آپ اسے دیکھیں، صارفین ہی ہمیشہ بڑے فاتح رہے ہیں۔‘‘
میٹا پر الزامات کیا ہیں؟یہ مقدمہ میٹا کے خلاف ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران 2020ء میں دائر کیا گیا تھا، جب اس کمپنی کا نام ابھی فیس بک تھا۔
امریکی حکومت نے عدم اعتماد سے متعلق نگران ادارے ایف ٹی سی کے ذریعے الزام لگایا ہے کہ کمپنی نے انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو اپنے حریف بننے سے پہلے ہی انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنی مارکیٹ پاور کا غلط استعمال کیا۔
میٹا نے سن 2012 میں تقریباً ایک بلین ڈالر کے عوض انسٹاگرام اور پھر سن 2014 میں تقریباً 22 بلین ڈالر کے عوض واٹس ایپ کو خرید لیا تھا۔
اس وقت ایف ٹی سی نے ہی اس سودے کی منظوری دی تھی۔ڈیٹا پرائیوسی کی خلاف ورزی، میٹا کو 91 ملین یورو کا جرمانہ
ٹرمپ کے ساتھ مارک زکربرگ کے تعلقاتمیٹا کے سربراہ زکربرگ کو امید تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کیس کو خارج کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر کاروبار کے ایجنڈے کی پیروی کرتے ہیں اور امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے دوستانہ نقطہ نظر بھی رکھتے ہیں۔
مقدمے کی سماعت سے پہلے مارک زکربرگ نے صدر ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کی افتتاحی تقریب کے فنڈ میں رقم دینے اور فیس بک پر مواد کی نگرانی کی پالیسیوں میں نرمی کرنے جیسے دیگر اقدامات کے علاوہ، مقدمہ لڑنے کے بجائے ٹرمپ کو کسی تصفیے کے لیے قائل کرنے کی خاطر دیگر ذرائع بھی استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔
میٹا نے اس سال جنوری میں ٹرمپ کو 25 ملین ڈالر ادا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی، تاکہ وہ سن 2021 کے اس تنازعے کو حل کر لیں، جس میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کیپیٹل ہل پر ہنگامے کے بعد فیس بک اور انسٹاگرام نے غلط طریقے سے ان کے اکاؤنٹس کو معطل کر دیا تھا۔
میٹا کی آر ٹی اور دیگر روسی سرکاری میڈیا اداروں پر پابندی
اس مقدمے کی سماعت جج جیمز بوسبرگ کر رہے ہیں، جنہوں نے سن 2021ء میں میٹا کے خلاف مقدمے کو ’’قانونی طور پر ناکافی‘‘ قرار دیا تھا، تاہم ایف ٹی سی نے اس بار اپنے کیس کو عدالت میں لے جانے کے لیے کافی کام کیا ہے۔
میٹا کا متوقع دفاعی موقف کیا ہوگا؟میٹا نے غیر صحت مند کاروباری مقابلے اور اجارہ داری کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور دلیل دی ہے کہ دیگر پلیٹ فارمز جیسے ٹِک ٹاک، جو چینی انٹرنیٹ کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے، مارکیٹ میں موزوں مسابقت کو یقینی بنا رہے ہیں۔
میٹا کے قانونی ماہرین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتائیں گے کہ میٹا نے ان دونوں پلیٹ فارمز کو حاصل کر کے ان میں کافی سرمایہ کاری کی اور اسی وجہ سے ان کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر انسٹاگرام کہ جب خریدا گیا تھا، تو وہ محض ایک فوٹو شیئرنگ ایپ تھی، جو اب ایک بہت مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات پر یورپی یونین کا ایکشن
اپنے دفاعی موقف میں یہ قانونی مشیر عدالت میں اس بات پر بھی زور دیں گے کہ میٹا کی ایپس صارفین کو مفت دستیاب ہوتی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مقدمے کی سماعت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز عدالت میں ایف ٹی سی میٹا کے میٹا نے کہ میٹا فیس بک کہا کہ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کا انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔31 جولائی ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکم اگست سے امریکہ انڈیا سے آنے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرے گا. ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں اپنے ایک بیان میں امریکی صدر نے کہاکہ انڈیا روس سے اپنازیادہ تر فوجی سازوسامان خریدتا ہے اور یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہر کوئی چاہتا ہے کہ روس یوکرین میں قتل و غارت کو ختم کرے دوسری جانب انڈیا چین کے ساتھ ساتھ روس سے توانائی لینے کا سب سے بڑا خریدار ہے.(جاری ہے)
صدر ٹرمپ نے لکھا کہ یہ سب چیزیں اچھی نہیں ہیں انڈیا کو جرمانے کے ساتھ ساتھ 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا پڑے گا جو یکم اگست سے شروع ہوگا اپنے پیغام میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ انڈیا اور امریکہ دوست ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے دونوں ممالک کے درمیان بہت کم تجارت ہو رہی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ٹیرف جو لگائے ہیں وہ دنیا میں سب سے زیادہ ہیں. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم مذاکرات کے باعث اس پر عملدرآمد یکم اگست تک روک دیا تھا اس دوران انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے کے حوالے سے بات چیت جاری تھی تاہم ابھی تک اس کے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا تھا. یورپی یونین‘جاپان اور برطانیہ سمیت کئی امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دستخط کرچکے ہیں تاہم کینیڈا‘چین‘بھارت اور روس سمیت کئی بڑے تجارتی ممالک اور میکسیکوسمیت براعظم امریکا کے کئی ممالک کے ساتھ معاہدہ طے نہیں پاسکا یاد رہے کہ امریکا گوشت‘پولٹری‘زرعی اور ڈیری مصنوعات سمیت بنیادی ضروریات کی متعدداشیاءکے لیے میکسیکو اور دیگر لاطینی امریکی ممالک پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے اسی طرح چین امریکی منڈیوں میں سب سے بڑا برآمدکندہ ہے. انڈیا پر ٹیرف کے نفاذ کے اعلان سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک پوسٹ میں پاکستان کے ساتھ معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے بتایاکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے. امریکی صدر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دونوں ممالک مل کر پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر کو قابل بازیافت ذخائر میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے انہوں نے کہا کہ فی الحال ہم آئل کمپنی کا انتخاب کرنے کے عمل میں ہیں جو اس پارٹنرشپ کو لیڈ کرے گی انہوں نے کہا کہ کون جانتا ہے شاید وہ کسی دن انڈیا کو تیل بیچ رہے ہوں گے پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے امریکی صدر کا بیان اپنے ”ایکس “اکاﺅنٹ ہر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے خیال رہے کہ امریکہ امریکی صدر نے متعدد ممالک پر یکم اگست سے اضافی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے اسی تناظر میں پاکستانی اعلیٰ حکام نے امریکہ کے متعدد دورے کیے ہیں حال ہی میں پاکستان وزیر خارجہ نے جولائی 21 سے جولائی 28 نے امریکہ کا دورہ کیا جبکہ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب بھی اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں.