ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے کے مطابق شہریوں سے ووٹ ڈالنے سے قبل شہریت کا ثبوت طلب نہیں کیا جاسکے گا، امریکی وفاقی جج کا کہنا ہے کہ صدرِ کو وفاقی سطح پر ووٹنگ کے لیے ایسی شرط عائد کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے امریکی شہری ہونے کا ثبوت لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، عدالت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو ووٹنگ کے لیے وفاقی سطح پر ایسی شرط عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ آئندہ صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے سکتا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق امریکا نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے تاہم حتمی فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سہیل آفریدی کا توہین عدالت کیس دائر کرنے کے لیے عدالت کو خط
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا عدالت کو لکھے گئے خط میں کہنا تھا کہ توہین عدالت کا کیس جمع کرنے کے لئے ہمیں حکم نامے کی تصدیق شدہ کاپی فراہم کی جائے، قانون کی پاسداری کے لیے کیس کو آگے بڑھانے کی خاطر حکم نامے کی کاپی درکار ہے۔انہوں نے خط میں کہا کہ آج کی تاریخ تک ہمیں حکم نامے کی کوئی کاپی تاحال موصول نہیں ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے توہین عدالت کیس دائر کرنے کے لیے عدالت کو خط لکھ دیا۔ خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ کو بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کا حکم دیا تھا، جیل انتظامیہ نے وزیراعلی کو ملنے کی اجازت نہیں دی۔ وزیراعلیٰ کے پی نے خط میں کہا کہ تصدیق شدہ کاپی کے حصول کے لیے درخواست پہلے ہی جمع کرائی جا چکی ہے، تاہم اب تک تصدیق شدہ کاپی فراہم نہیں کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ توہین عدالت کا کیس جمع کرنے کے لئے ہمیں حکم نامے کی تصدیق شدہ کاپی فراہم کی جائے، قانون کی پاسداری کے لیے کیس کو آگے بڑھانے کی خاطر حکم نامے کی کاپی درکار ہے۔ سہیل آفریدی نے خط میں کہا کہ آج کی تاریخ تک ہمیں حکم نامے کی کوئی کاپی تاحال موصول نہیں ہوئی، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط ارسال کر دیا۔