رئیل اسٹیٹ پر ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت نے ریئل اسٹیٹ پر ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، حکومت نے یہ 3 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی جولائی میں عائد کی تھی، جو کسی بھی پلاٹ کی پہلی بار فروخت پر وصول کی جاتی تھی، لیکن اب 10ماہ بعد یہ ڈیوٹی واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ایف بی آر کے سینیئر حکام نے تصدیق کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: رئیل اسٹیٹ شعبہ جلد تیزی کی جانب گامزن ہوگا، سرمایہ کار
یاد رہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی فائلرز پر 3 فیصد اور نان فائلرز پر 5 فیصد عائد کی گئی تھی، ذرائع کا کہنا ہے کہ اب دونوں کیٹگریزکو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، جس کیلیے ایف بی آر نے سمری بھیج دی ہے۔
ترجمان ایف بی آر ڈاکٹر نجیب میمن نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کے لیے قانون سازی جلد کی جائے گی، وزیر خزانہ سمری کی منظوری دے چکے ہیں، جلد سمری وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردی جائے گی۔
مزید پڑھیں: اقتصادی جائزہ مذاکرات؛ آئی ایم ایف کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں چوری روکنے کا مطالبہ
علاوہ ازیں، حکومت نے سالانہ 10 ملین سے زیادہ آمدنی پر 10 سرچارج عائد کیا تھا، ذرائع کے مطابق نئے مالی سال سے یہ سرچارج بھی ختم کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت تنخوا دار طبقے پر سے ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے لیے مختلف امکانات پر غور کر رہی ہے، لیکن یہ فیصلے آئی ایم ایف کی رضامندی سے مشروط ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایکسائز ڈیوٹی کا فیصلہ
پڑھیں:
بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، ذرائع
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی : فوٹو فائلبھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، بھارتی سیکریٹری آبی وسائل نے پاکستانی ہم منصب کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا بھارتی اعلان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش جنگ سمجھی جائے گی، پوری قومی قوت سے جواب دیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے...
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔