گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں کئی اہم قومی فیصلے کیے گئے۔ جس میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی بچت کو صارفین تک منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ رقم بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

اس خبر پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آیا۔ تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے، جو کہ غریب اور امیر سب پر یکساں لاگو ہوگا۔ اس ٹیکس کا مقصد بلوچستان میں ایک سڑک کی تعمیر اور نہر کی تکمیل ہے، جس کے نتیجے میں پیٹرولیم لیوی میں اضافہ ہوگا۔ یہ فیصلہ ایک کمزور پالیسی اقدام ہے اور اسے منی بجٹ کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فیکٹ چیک: پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ، حقیقت کیا؟

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان مالی طور پر خودکفیل صوبہ ہے، جس کے پاس دسمبر 2024 تک 91.

4 ارب روپے کا بجٹ موجود تھا، جب کہ وفاقی پی ایس ڈی پی کے تحت 1100 ارب روپے کی خطیر رقم بھی دستیاب ہے۔

ایسے حالات میں حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر دیے جانے والے عوامی ریلیف کو روکنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہم بلوچستان کی ترقی کے حامی ہیں، لیکن اس کے لیے وزیرِاعظم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹرینز کے صوابدیدی فنڈز اور دیگر موجودہ وسائل بروئے کار لائیں۔

شہباز رانا کا کہنا تھا کہ عوام پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ مزید زیادتی نہ کی جائے۔ عوام کم از کم 8 روپے فی لیٹر قیمت میں کمی کے حق دار ہیں۔

Prime Minister Shehbaz Sharif has approved to impose additional tax on every liter of petrol and diesel consumed by poor to rich people to build a road and complete a canal in Balochistan by increasing petroleum levy rates. It’s a bad policy decision and tantamount to…

— Shahbaz Rana (@81ShahbazRana) April 15, 2025

سابق وزیراطلاعات فواد حسین کا کہنا تھا کہ روایتی طور پر بلوچستان میں بڑے منصوبے صرف کرپشن کے لیے بنائے جاتے ہیں، بہت ہی قابل مذمت ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں پر خصوصی ٹیکس لگایا جائے کہ بلوچستان میں ایک اور بے کار سڑک کا منصوبہ مکمل کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ہو گا، صوبے اپنے ترقیاتی منصوبے اپنے وسائل سے مکمل کریں۔

روائتی طور پر بلوچستان میں بڑے منصوبے صرف کرپشن کیلئے بنائے جا تے ہیں، بہت ہی قابل مذمت ہے کہ پنجاب، سندہ اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں پر خصوصی ٹیکس لگایا جائے کہ بلوچستان میں ایک اور بے کار سڑک کا منصوبہ مکمل کرنا ہے، اس ٹیکس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ہو گا، صوبے اپنے ترقیاتی… https://t.co/FrDgSK4jaP

— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) April 15, 2025

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ’ٹیکس‘ کا لفظ استعمال کرنا نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ یہ اس بات کا عکاس بھی ہے کہ آپ کی سوچ زمینی حقائق سے کس قدر دور ہے۔ یہ مؤقف سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی سے حاصل شدہ بچت کو بلوچستان کی ترقی پر صرف کر رہی ہے۔ جو کہ ملک کے سب سے نظرانداز کیے گئے اور محروم علاقوں میں شامل ہے۔

عطا تارڑ نے مزید کہا کہ یہ کوئی مالی بوجھ نہیں، بلکہ ایک دیر سے پورا ہونے والا وعدہ ہے۔ پیٹرول کی وقتی کمی وقتی ریلیف دیتی ہے، لیکن حقیقی تبدیلی وہ ترقیاتی منصوبے لاتے ہیں جو سڑکوں، اسکولوں اور روزگار کے مواقع کی شکل میں عوام کی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں۔

انہوں نے شہباز رانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے اس قسم کی سوچ اور فیصلوں کو سمجھنے کے لیے دور اندیشی اور احساس درکار ہوتا ہے جو آپ کے مؤقف میں بظاہر موجود نہیں۔ اس طرح غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔

Calling this a “tax” isn’t just misleading- it’s a reflection of how disconnected and uncaring your thinking is. Totally false and untrue.

The govt is using savings from global oil prices to uplift Balochistan – one of the most deprived regions of the country. That’s not a… https://t.co/kMXcsptUsK

— Attaullah Tarar (@TararAttaullah) April 15, 2025

خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا کہ ابتدائی تاثر یہ ہے کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر جانبداری پر مبنی ہے۔ خیبر پختونخوا بھی بدامنی اور امن و امان کی خراب صورتحال سے بری طرح متاثر ہے، مگر حکومت اس کی مشکلات کو یکسر نظرانداز کر رہی ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کی محرومیوں کا بھی کوئی ازالہ نہیں کیا جا رہا، اور نہ ہی نئے این ایف سی ایوارڈ پر پیش رفت ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح، 1990 کی دہائی میں شروع کیے گئے سی آر بی سی لفٹ کینال فیز 1 منصوبے کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ منصوبہ خیبر پختونخوا اور ملک کی غذائی خودکفالت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔

ایسے فیصلے صرف کابینہ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، بلکہ انہیں نیشنل اکنامک کونسل (NEC) جیسے فورمز پر زیر غور لایا جانا چاہیے، جہاں تمام وفاقی اکائیوں کی مکمل نمائندگی موجود ہوتی ہے۔

Initial impression:

Complete discrimination. Khyber Pakhtunkhwa is equally affected due to law & order situation. Govt is completely ignoring the woes of merged area (Ex FATA). Avoiding new NFC. Similarly, govt is not taking up 1990s phase 1 of CRBC lift Canal phase 1. It will… https://t.co/a6sm8PvldK

— Muzzammil Aslam (@MuzzammilAslam3) April 15, 2025

شکیل احمد نے لکھا کہ اگلے بجٹ میں مزید ٹیکسز لگائے جائیں گے۔

In next budget more taxes. https://t.co/hoHGZeThrq

— Shakil Ahmed. (@shakilahmed2000) April 16, 2025

کریم خواجہ لکھتے ہیں کہ یہ حکومت کی جانب سے اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Good decision by govt
Finally a sense prevails https://t.co/xtDwoprzO3

— Karim khowaja (@khowajakarim) April 15, 2025

ایک صارف نے لکھا کہ یہ ن لیگ کی ہائبرڈ حکومت کا ایک اور عوام دشمن قدم ہے کہ پیٹرول کی قیمت کم کرنے کے بجائے مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے ہائبرڈ رجیم سے مشاورت کے بعد عوام کو سستا پیٹرول دینے سے انکار کردیا اور بلوچستان میں ترقی کے نام کا بہانہ بنا لیا۔

ن لیگ اکی ہائبرڈ حکومت کا ایک اور عوام دشمن قدم
پیٹرول کی قیمت کم کرنے کے بجائے مزید ٹیکس لگانے کا اعلان
وزیراعظم نے ہائبرڈ رجیم سے مشاورت کے بعد عوام کو سستا پیٹرول دینے سے انکار کردیا ۔عوام پر مہنگے تیل کا ظالم کوڑا برستا رہے گا۔۔۔ بلوچستان میں ترقی کے نام کا بہانہ بنا لیا… https://t.co/LC5g6b0Qfc

— Farhan Reza (@farhanreza) April 15, 2025

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف بلوچستان پیٹرولیم مصنوعات شہباز شریف

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف بلوچستان پیٹرولیم مصنوعات شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کی قیمت ایک اور کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ’نئے فون کا ٹیکس ادا کرنے کے لیے پرانا فون بیچنا پڑا‘، قاسم گیلانی کی پوسٹ پر شدید تنقید
  • جج کیخلاف سوشل میڈیا مہم کیس: جسٹس راجا انعام امین منہاس کی سماعت سے معذرت
  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • جسٹس ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا مہم کا معاملہ، جسٹس منہاس نے کیس سننے سے معذرت کرلی
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025 عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی رکن کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
  • زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • 2025 میں ریکارڈ 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ،وزیراعظم کی ایف بی آر حکام کی ستائش
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا