ادویات کی قیمتوں کے کنٹرول کا نظام پھر لٹک گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
نگران کاکڑ حکومت نے 18؍فروری 2024کو ادویات کی قیمتیں ڈی کنٹرول کرنے کا عوام دشمن حکم جاری کیا تھا
قیمتیں ڈی کنٹرول ہونے سے مارکیٹ کاحکومتی نگرانی سے مکمل آزاد ہو کر فارماسوٹیکل کمپنیزکے رحم وکرم پر جانے کا خدشہ
قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے وفاقی حکومت نے ایک بار پھر عدالت عالیہ لاہور میں جواب جمع نہیں کرایا جس سے ادویات کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا نظام پھر معلق ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ سیاسی طور پر سوالات کے نرغے میں رہنے والی بدترین نگران کاکڑ حکومت نے 18؍فروری 2024کو ادویات کی قیمتیں ڈی کنٹرول کرنے کا عوام دشمن حکم جاری کیا تھا، جس سے عملاً ادویہ مارکیٹ حکومتی نگرانی سے مکمل آزاد ہو کر فارماسوٹیکل کمپنیز اور فارما ڈسٹریبیوٹرز کی چھتری تلے چلی جاتی ہے۔ مزید براں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کردار بھی عملاً باقی نہیں رہ جاتا۔ جو پہلے ہی ادویات کے معیار اور قیمتوں کے حوالے سے فارما سوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے کے باعث خاصی بدنام ہیں۔ چنانچہ مذکورہ نگراں حکومت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا تھا، لیکن شہباز شریف حکومت نے 30 مئی 2024کو نگراں کاکڑ حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی مذموم کوشش برقرار رکھی ہے۔ اور اس پر عدالت میں کوئی واضح جواب دینے سے مسلسل گریز کر رہی ہے۔ ہائیکورٹ میں نگراں دور کے فیصلے کو چیلنج کیے جانے کے بعد مسلسل موجودہ وفاقی حکومت ٹا ل مٹول سے کام لیتے ہوئے عدالت میںجواب جمع کرانے سے گریز کر رہی ہے اورگزشتہ روز( 15اپریل )کو وفاقی حکومت اور ڈرگ ڈگری اتھارٹی نے مزید عدالت سے وقت لے لیا ہے۔ یوں خود حکومت اور ڈریپ قیمتوںپر کنٹرول کے کردار سے دور ہوتے ہوئے مارکیٹ فارماسوٹیکل کمپنیوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ یہ واضح گٹھ جوڑ گزشتہ روز بھی وفاقی حکومت کی طرف سے جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ نمائندہ جرأت کے ایک سوال کے جواب میںپاکستان ڈرگ لائر فورم کے صدر نور مہر نے کہا ہے کہ مریضوں کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: وفاقی حکومت ادویات کی حکومت نے
پڑھیں:
نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کیلئے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں، وفاقی وزیر اویس لغاری کا اعتراف
سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر پانی و بجلی اویس لغاری نے اعتراف کیا ہے کہ نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کے لیے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے سینیٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ وہ 6.5 فیصد بل وصول نہیں کر پاتے، وہ بوجھ حکومت یا صارفین اٹھائیں، ہم نے کہا کہ یہ مطالبہ ناجائز ہے، حکومت نے نیپرا کے پاس نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔ اگر یہ منظور ہوگئی تو اگلے سات برسوں میں حکومت پاکستان کو 650 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
اویس لغاری نے کہا کہ اخباروں میں لیک آڈٹ رپورٹ چھاپی گئی ہے، یہ سال 24-2023 اور ہماری حکومت سے پہلے کی رپورٹ ہے، ہم نے ایک سال میں گزشتہ سال کے 584 ارب لائن لاسز میں سے 191 ارب کم کیا ہے، پاکستان میں مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بجلی فراہم کرتی ہیں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے ایک کے الیکٹرک ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ پالیسی نافذ ہونے کے بعد مسابقتی مارکیٹ میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہوسکے گی،
وزیر توانائی نے کہا کہ کے الیکٹرک نہ صرف ڈسٹری بیوشن بلکہ جنریشن اور ٹرانسمیشن کمپنی بھی ہے، کے الیکٹرک کا ریٹ مقرر کرنے کا اختیار نیپرا کے پاس ہوتا ہے، کے الیکٹرک پٹیشن فائل کرتا ہے، پٹیشن میں بتایا جاتا ہے اس دوران اس کے نقصانات کتنے ہوئے، کتنے فیصد بل ریکور ہوں گے، ورکنگ کیپیٹل کی لاگت، آپریشنل اخراجات کا بھی پٹیشن میں بتایا جاتا ہے، منافع کیا ہوگا، یہ بھی پٹیشن میں بتایا جاتا ہے۔
اویس لغاری نے مزید کہا کہ کراچی الیکٹرک یہ بھی بتاتا ہے وہ سالانہ کتنے ارب روپے کی بجلی اپنے پلانٹس سے پیدا کرے گا، اس کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن پر کتنے اخراجات آئیں گے، آخر میں کے الیکٹرک کہتا ہے اسے "ریٹرن آن ایکویٹی" کی بنیاد پر فی یونٹ اتنی قیمت دی جائے، نیپرا عوام کے سامنے یہ تمام چیزیں رکھ کر سنتی اور اس کے بعد فیصلہ دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ موجودہ حکومت نے نیپرا کے فیصلے کا مکمل مطالعہ کیا، حکومت کے پاس نیپرا فیصلے کیخلاف نظرثانی فائل کرنے کیلئے صرف 10 دن ہوتے ہیں، ہم نے فیصلے کو مکمل طور پر پڑھا اس کے بعد ایک ریویو بھی فائل کیا، ہم نے کہا کہ جو ریٹ نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو دیا ہے وہ جائز نہیں ہے، لائن لاسز کی اجازت 13.9 فیصد دی گئی ہے جو زیادہ ہے۔
ان کی اپنی رپورٹ کے مطابق لا اینڈ آرڈر مارجن دینے کے بعد یہ 8 یا 9 فیصد ہونے چاہئیں، وہ کہتے ہیں 6.5 فیصد بل وصول نہیں کرپاتے، تو وہ بوجھ حکومت یا صارفین اٹھائیں، ہم نے کہا یہ ناجائز ہے، وہ کہتے ہیں کہ ورکنگ کیپیٹل کی کاسٹ کائیبور پلس ایکس پرسنٹ ہے، ہم نے کہا کہ آڈٹ رپورٹس کے مطابق تو انہیں بینک سے قرض کائیبور پلس 0.5 یا 1 فیصد پر ملتا ہے، کنزیومر سے 2 فیصد کیوں لیا جائے؟
اویس لغاری نے مزید کہا کہ ٹیرف کا تعین کرنے میں 8 یا 9 مختلف پورشنز ہوتے ہیں، ہم نے ہر ایک میں ریڈکشن کی گزارش کی اور اسی بنیاد پر نیپرا میں ریویو فائل کیا، اگر ہمارا ریویو منظور ہو جاتا ہے تو اگلے 7 سالوں میں حکومت پاکستان کو 650 ارب روپے کی بچت ہو گی، اگر ریویو نہیں مانا جاتا تو ناجائز طور پر کے الیکٹرک کو 650 ارب روپے ادا کیے جائیں گے، اس ادائیگی کا نقصان پورے ملک کو برداشت کرنا پڑے گا۔
وزیر توانائی نے کہا کہ جو کمپنی اپنے اخراجات ری کور نہیں کر پاتی اس کا بوجھ کنزیومر یا حکومت برداشت کرتی ہے، صرف پچھلے سال حکومت کے الیکٹرک کو 175 ارب روپے ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈی میں ادا کرچکی، کے الیکٹرک پر 175 ارب ضائع کرنے کے بجائے آپ اس رقم سے کتنے ترقیاتی منصوبے بنا سکتے تھے، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ٹیرف میں بہتری لانا ہوگی۔
اویس لغاری نے یہ بھی کہا کہ حکومتی ڈسکوز کا ٹیرف 100 فیصد ریکوری پر کیلکولیٹ ہوتا ہے، ہم ان کو ساڑھے 6 فیصد زیادہ کیوں پیش کرنے دیں، حکومت کے علاوہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے بھی نظرثانی کی پٹیشن دائر کی ہے۔