پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مدد کی ہے، عالمی ایجنسی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
مجموعی طور پر 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 54 ہزار 33 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں سے 6 فیصد (48 ہزار 42 افراد) یکم جنوری 2025 سے اب تک واپس آ چکے ہیں۔ گرفتاری کا خوف (93 فیصد افراد کے) افغانستان واپس آنے کی اہم وجہ ہے، اس کے بعد فرقہ وارانہ دباؤ (29 فیصد) اور خاندان کے کسی رکن کی ملک بدری (18 فیصد) ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے کہا ہے کہ ستمبر 2023 میں افغان واپسی کی تحریکوں میں ڈرامائی اضافے کے بعد سے اب تک اس نے پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مدد کی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق یہ اعلان ایک ایسے نازک وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت پاکستان نے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، جس سے 2025 کے دوران ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ غیر قانونی افغان تارکین وطن اور افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز متاثر ہوسکتے ہیں۔
ستمبر 2023 سے اب تک 24 لاکھ 30 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان مہاجرین پاکستان اور ایران سے واپس آچکے ہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ بین الحکومتی تنظیم آئی او ایم کے مطابق ان میں سے 54 فیصد کو جبری طور پر واپس بھیجا گیا، تنظیم نے واپس آنے والے 10 لاکھ 3 ہزار 563 افراد کو آمد کے بعد انسانی امداد فراہم کی ہے۔ آئی او ایم افغانستان کے چیف آف مشن میہونگ پارک نے کہا کہ 10 لاکھ کی تعداد تک پہنچنا آئی او ایم اور ہماری شراکت دار ایجنسیوں دونوں کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ملک میں واپس آنے والے افغانوں کی مدد کرنے کے ہمارے جاری عزم کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بہت سے لوگوں کے پاس واپس آنے کے لیے بہت کم یا کچھ بھی نہیں ہے۔
پاکستان سے بڑے پیمانے پر واپسی کی ایک نئی لہر کے ساتھ، سرحد اور واپسی کے علاقوں میں زمینی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جو بڑی تعداد میں واپس آنے والوں کو جذب کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، آئی او ایم اور اس کے شراکت داروں نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانوں کی جبری واپسی کو فوری طور پر روکیں، جب تک کہ کسی شخص کی قانونی حیثیت سے قطع نظر محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حالات پیدا نہیں ہو جاتے۔ آئی او ایم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم سے 13 اپریل 2025 کے درمیان آئی او ایم نے جبری واپسی میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا۔
ایجنسی کے مطابق تقریباً 60 ہزار افراد طورخم اور اسپن بولدک سرحدی مقامات کے ذریعے افغانستان میں داخل ہوئے، آئی او ایم نے ان میں سے 10 ہزار 641 افراد کی مدد کی ہے۔ دریں اثنا، 2023 کے آخر میں ایران سے واپسی مسلسل زیادہ رہی اور 2024 تک جاری رہی، ایرانی حکام نے اس سال جلاوطنی میں اضافہ کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ مجموعی طور پر 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 54 ہزار 33 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں سے 6 فیصد (48 ہزار 42 افراد) یکم جنوری 2025 سے اب تک واپس آ چکے ہیں۔ گرفتاری کا خوف (93 فیصد افراد کے) افغانستان واپس آنے کی اہم وجہ ہے، اس کے بعد فرقہ وارانہ دباؤ (29 فیصد) اور خاندان کے کسی رکن کی ملک بدری (18 فیصد) ہے۔
سب سے زیادہ واپس آنے والوں کا تعلق پنجاب (28 فیصد)، بلوچستان (24 فیصد)، سندھ (21 فیصد) اور خیبر پختونخوا (20 فیصد) سے تھا۔ ایک چھوٹا سا حصہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (7 فیصد) سے بھی آیا، پاکستان سے واپسی کے اصل اضلاع میں کراچی (20 فیصد)، کوئٹہ (16 فیصد)، راولپنڈی (14 فیصد) اور پشاور (12 فیصد) شامل ہیں، دوسرے اضلاع میں واپس لوٹنے والوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ افغانستان میں واپس آنے والے زیادہ تر افراد سرحد کے قریب واقع صوبوں کا رخ کرتے ہیں جن میں کابل (20 فیصد)، قندھار (18 فیصد) اور ننگرہار (17 فیصد) شامل ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افغانستان واپس واپس آنے والے ایران سے واپس آئی او ایم کے مطابق میں واپس سے اب تک چکے ہیں نے والے کی مدد کے بعد
پڑھیں:
افغان مہاجرین کا انخلا باوقار انداز میں مکمل کیا جائیگا، سرفراز بگٹی
اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے واضح کیا کہ افغان مہاجرین کے انخلاء کے عمل میں خواتین، بزرگوں اور بچوں کا خصوصی خیال رکھا جائے اور کسی بھی مرحلے پر تحقیر آمیز رویہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائیگا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ صوبے میں افغان مہاجرین کے انخلاء کے عمل کو شفاف، منظم اور باوقار انداز میں مکمل کیا جائے گا، تاکہ کسی بھی فرد کی عزت نفس متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان وفاقی پالیسی کے تحت مہاجرین کے انخلاء پر عملدرآمد کرا رہی ہے اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین سے قریبی رابطہ قائم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سی ایم سیکرٹریٹ میں اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں افغان مہاجرین کے انخلاء اور قلعہ عبداللہ میں امن و امان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ حمزہ شفقات، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر، ڈی جی لیویز عبدالغفار مگسی، کمشنر کوئٹہ ڈویژن شاہ زیب کاکڑ، کمشنر افغان ریفوجیز بلوچستان ارباب طالب المولا سمیت اعلیٰ حکام شریک ہوئے، جبکہ ڈی آئی جی ژوب، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او قلعہ عبداللہ و چمن نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ نے اجلاس کو افغان مہاجرین کے انخلاء اور سکیورٹی انتظامات سے متعلق بریفنگ دی۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ انخلاء کے عمل میں خواتین، بزرگوں اور بچوں کا خصوصی خیال رکھا جائے اور کسی بھی مرحلے پر تحقیر آمیز رویہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تضحیک آمیز رویوں کی شکایات موصول ہونے پر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سرفراز بگٹی نے ہدایت کی کہ انخلاء کے دوران ہر ممکن تعاون اور معاونت فراہم کی جائے اور خواتین کی سہولت کے لئے عارضی بنیادوں پر فیمیل سکیورٹی اہلکاروں کی بھرتی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح یہ ہے کہ انخلاء کا عمل انسانی وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل کیا جائے۔ اجلاس میں قلعہ عبداللہ کی امن و امان کی صورتحال پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے واضح ہدایات دیں کہ ضلع سے تمام جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ لیویز اور پولیس کے دائرہ کار سے قطع نظر بلاامتیاز کارروائیاں کی جائیں اور کسی بھی جرائم پیشہ گروہ کو رعایت نہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے لئے صوبائی حکومت تمام وسائل فراہم کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے قلعہ عبداللہ کے ڈویژنل اور ضلعی انتظامی افسران کو بحالی امن کا خصوصی ٹاسک سونپتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو ارسال کی جائے۔