چینی صدر کا اعلیٰ سطح کی اسٹریٹجک چین ملائشیا برادری کے قیام کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
کوالالمپور(شِنہوا) چین کے صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ چین مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کی اسٹریٹجک چین ،ملائیشیا برادری قائم کرنے کے لئے ملائیشیا کے کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے تاکہ دوطرفہ تعلقات کے لئے نئے سنہری 50 سال کا آغاز کیا جاسکے۔ شی نے یہ بات بدھ کے روز ملائیشیا کے سرکاری دورے میں ملائیشیا کے بادشاہ سلطان ابراہیم سلطان اسکندر سے ملاقات میں کہی۔ ملاقات سے قبل سلطان ابراہیم نے شی کا شاندار استقبال کیا۔ ملاقات کے دوران شی نے نشاندہی کی کہ چین اور ملائیشیا اچھے ہمسائے ، اچھے دوست اور اچھے شراکت دار ہیں جو خاندان کی مانند ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ تعلقات ایک شاندار نصف صدی سے گزرچکے ہیں اور مزید روشن مستقبل کو اپنارہے ہیں۔ شی کا کہنا تھا کہ وہ ملائیشیا کے اعلیٰ سربراہ مملکت سلطان ابراہیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں تاکہ چین ۔ ملائیشیا تعلقات میں طویل مدتی اور مستحکم ترقی کی قیادت کی جا سکے اور اچھی ہمسائیگی، دوستی، یکجہتی اور تعاون کا ایک نیا باب لکھا جاسکے۔ شی نے کہا کہ چین اور ملائیشیا کو سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنا اور اپنے متعلقہ بنیادی مفادات اور بڑے خدشات سے متعلق امور پر ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین کو ترقیاتی حکمت عملیوں میں ہم آہنگی کو گہرا کرنا ، باہمی مفید اور مساوی فوائد کے لئے ایک دوسرے کی قوت سے فائدہ اٹھانا اور مشترکہ طور پر جدیدیت کو آگے بڑھانا چاہئے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
شام کی صورتحال شہید سید ابراہیم رئِسی کے معاون کی آنکھ سے
ایک ٹی وی پروگرام میں پروفیسر سید محمد حسینی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ایرانی صدر شہید "سید ابراہیم رئیسی" کے معاون، پروفیسر "سید محمد حسینی" نے نیشنل ٹی وی پر شام کی صورت حال پر تبصرہ کیا۔ اس حوالے سے سید محمد حسینی نے کہا کہ آج کل شام میں اہم واقعات رونماء ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے جولانی گینگ جیسے دہشت گرد گروہ کے زیر استعمال صدارتی محل اور فوجی ہیڈکوارٹر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ شام کے پاس نہ تو کوئی جوہری پروگرام ہے، نہ ہی یورینیم افزودگی کا نظام، نہ میزائل کی صلاحیت اور نہ ہی مؤثر فضائی دفاع۔ اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے لیے بھی سنگین فوجی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود دشمن شام پر بمباری اور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کے مقاصد کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ سے وابستہ حلب کی حکومت، امریکہ سے وابستہ کردوں کی حکومت، دروزیوں کی ایک الگ حکومت، اور دمشق یا علویوں کی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ واضح طور پر شام کے حکومتی ڈھانچے کے مکمل ٹوٹنے کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر سید محمد حسینی نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف صرف شام اور لبنان تک محدود نہیں۔ اگر وہ کر سکیں تو عراق، سعودی عرب، مصر اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایک ایسا علاقائی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں طاقت ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی ممالک ان کے تابع۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گذشتہ دور میں، ایران کو علاقائی خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ یہی عوامی بیداری ہے جس کی وجہ سے قومیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ بہت سی حکومتیں بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ہم نے دیکھا کہ اسلامی ممالک اور یہانتک کہ عرب لیگ بھی ایران کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کا عالمی عوامی رائے پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور مزید مضبوط ہوگا۔