رائٹ سائزنگ، نیپرا، اوگرا و دیگر ریگولیٹریز سے مشیروں، اسٹاف کی تعدد، تنخواہوں کی تفصیلات طلب
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے خود مختار اداروں و نیپرا، اوگرا، سمیت دیگر ریگولیٹری اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کرلیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں سینیٹرز محسن عزیز، شیری رحمٰن، فیصل واوڈا، ذیشان خانزادہ، انوشہ رحمان، کابینہ ڈویژن اور وزارت خزانہ و محصولات کے سیکریٹریز اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو نے انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025ء موخر کردیا۔ اجلاس میں جون 2024ء سے مارچ 2025ء تک کی مدت پر مشتمل سالانہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
اجلاس میں کمیٹی نے سینیٹر ذیشان خانزادہ کے سترہ فروری 2025ء کو سینیٹ میں پیش کردہ نجی بل انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025" پر غور کیا۔
اجلاس کے دوران بل کے منی بل ہونے کے حوالے سے اعتراضات زیر بحث آئے۔ کمیٹی اراکین نے اس بات پر غور کیا کہ کیا اس بل میں بعض ترامیم اس طرح شامل کی جا سکتی ہیں کہ وہ منی بل کی تعریف میں نہ آئیں؟
اجلاس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ اگر کسی بل کے منی بل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق تعین نہ ہوسکے تو اس کے بارے میں قانون کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کا تعین کرسکیں۔
اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے ایک بل کے معاملے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے مگر ابھی تک جواب ہی نہیں آیا۔
رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل براہ راست ٹیکسیشن میں مداخلت نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی تجویز بہتری لاسکتی ہے تو اسے روکنے کے بجائے زیر غور لانا چاہیے۔
اس معاملے پر مزید وضاحت کے لیے کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایف بی آر کے چیئرمین کو اگلے اجلاس میں طلب کیا جائے تاکہ بل کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اجلاس میں کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کا وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کے اقدام پر بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی حکومت کے حجم کو مختصر کرکے صرف بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور دیگر اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جائیں۔
سیکریٹری کابینہ نے واضح کیا کہ اس عمل سے ریگولیٹری اتھارٹیز متاثر نہیں ہوں گی البتہ ان اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کی گئی ہیں جب کہ خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں قائم ’رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنایا جاسکے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے حکومتی اصلاحات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف حکومت اخراجات کم کرنے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف کابینہ کا حجم دگنا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی سے سرکاری ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان افراد کا کیا بنے گا جنہیں جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجا جائے گا؟ اس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیاکہ یہ فیصلہ ناگزیر تھا اور اس سے ریاست کو نمایاں بچت حاصل ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ضروری اسامیوں کے خاتمے سے پہلے ہی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جو حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔
نئے وزراء کی تقرریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ نئے وزراء کی شمولیت وزارتوں کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے گی اور یہ بھی ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ مالی نظم و ضبط اور انتظامی کارکردگی کے درمیان توازن قائم رکھنا اور اصلاحاتی اقدامات پر عمل درآمد آسان نہیں۔
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا محکمہ وار تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ اجلاس میں مزید تبادلہ خیال کیا جائے گا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قائمہ کمیٹی اجلاس میں انہوں نے کمیٹی نے کیا کہ
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت موزوں سائز کے کپڑے خریدنے میں مدد کر سکتی ہے؟
زیادہ تر لوگوں کو دکانوں میں درست سائز کے کپڑے نہ مل پانے پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اب اس مسئلے کے بھی کچھ حد تک حل سامنے آچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کمالات: بزرگوں کی خدمت گار، نابیناؤں کی ’آنکھ‘، اور بہت کچھ!
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک جینز کا جوڑا ایک برانڈ میں سائز 10 ہو سکتا ہے تو کسی اور برانڈ میں سائز 14 ہو جس سے صارفین الجھن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ دنیا بھر میں ریٹرنز کے طوفان کا سبب بن چکا ہے جس سے فیشن ریٹیلرز کو ہر سال تقریباً 190 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ خریدار یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کس دکان سے کون سا سائز لینا چاہیے۔
لندن کی ایک مشہور شاپنگ اسٹریٹ پر بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ میں دکانوں پر سائزنگ پر بھروسہ نہیں کرتی اور سچ کہوں تو میں اصل سائز کی بجائے دیکھ کر خریدتی ہوں۔
خواتین کی ٹیکنیکایسی بہت سی خواتین ہیں جو اکثر ایک ہی آئٹم کے کئی ورژن آرڈر کرتی ہیں تاکہ ایک صحیح فٹ والا مل سکے اور باقی واپس کر دیتی ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ریٹرنز کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔
سائزنگ ٹیکنالوجی کی نئی نسلاب کچھ ٹیک کمپنیز اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ’ایزی سائز‘، ’ٹرو فٹ‘ اور ’ڈی لک تھری‘ جیسی ایپلیکیشنز صارفین کو درست سائز چننے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ موبائل فون کی فوٹوز کے ذریعے جسم کے اسکین کے بعد سب سے مناسب فٹ کی تجویز پیش کرتی ہیں۔
اسی دوران گوگل کے ورچوئل فٹنگ روم پلیٹ فارمز صارفین کو ڈیجیٹل اوتار بنانے اور دیکھنے کی سہولت دیتے ہیں کہ آئٹم کس طرح لگے گا تاکہ آن لائن خریداری میں اعتماد بڑھ سکے۔
مزید پڑھیے: کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
حال ہی میں اے آئی سے چلنے والے شاپنگ ایجنٹس بھی مارکیٹ میں آئے ہیں۔’ ڈے ڈریم‘ صارفین کو اپنی ضروریات بیان کرنے دیتا ہے اور پھر اختیارات تجویز کرتا ہے۔
’ون آف‘ مشہور شخصیات کے انداز کو یکجا کر کے مشابہ آئٹمز تلاش کرتا ہے جبکہ ’فیا‘ لاکھوں ویب سائٹس اسکین کر کے قیمتوں کا موازنہ اور سائز کی ابتدائی معلومات فراہم کرتا ہے۔
فٹ کلیکٹیو ماڈلیہ سسٹم مشین لرننگ استعمال کر کے ریٹرنز، سیلز اور صارفین کے ای میلز کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ سمجھا جا سکے کہ کپڑا کیوں فٹ نہیں آیا۔
پھر یہ معلومات ڈیزائن اور پروڈکشن ٹیمز کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ پیٹرنز، سائز اور مواد کو مینوفیکچرنگ سے پہلے ایڈجسٹ کر سکیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہم خبروں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟
مثال کے طور پر سسٹم کسی کمپنی کو کہہ سکتا ہے کہ کسی آئٹم کی لمبائی چند سینٹی میٹر کم کر دیں تاکہ ریٹرنز کی تعداد کم ہو اور کمپنی اور صارف دونوں کا وقت اور پیسہ بچ سکے۔
ٹیکنالوجی کی حدودانڈسٹری میں بہت سے لوگ ایسی ایپلیکشنز یا ٹولز کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن کچھ کہتے ہیں کہ صرف ٹیکنالوجی فیشن کے سائزنگ کے مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کر سکتی۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
حالانکہ کوئی ایک حل مکمل طور پر غیر متوازن سائزنگ کو حل نہیں کر سکتا، لیکن ’فٹ کلیکٹیو‘ جیسے ٹولز اور ورچوئل ٹرائی آن اور سائز پیشن گوئی کے پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی نظام سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنعت میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اے آئی اور سائزنگ اے آئی اور کپڑوں کے سائز مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور کپڑوں کے سائز