کتابوں’’چشم نم‘‘ اور ’’واپسی‘‘پر تبصرے
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
دنیا بھر میں کتابوں کے مترجمین کو بدیسی زبانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے وقت متن کا اصل مفہوم و لطف برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کسی بھی کتاب، مقالے یا مضمون کا اپنی ملکی زبان میں ترجمہ تو آسانی سے کیا جا سکتا ہے مگر تحریر کی بنیادی روانی اور سلاست کو قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ گزشتہ ہفتے دو کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور یہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں کتب مصنفین کے انڈیا یاترا کے تاثرات ہیں۔ پہلے پہل سفرنامے بڑے شوق سے لکھے اور پڑھے جاتے تھے جن میں مستنصر حسین تارڈ کی سفری رودادِیں ’’ٹاپ آف دی لسٹ‘‘ ہیں۔ تارڈ صاحب زود لکھاری ہیں۔ ان کے بارے میں ازراہ تفنن کہا جاتا ہے کہ وہ غیرملکی سیروسیاحت کے دوران کسی ہوٹل میں ایک رات گزارتے ہیں تو وہ اس کا احوال بیان کرنے میں ایک پوری کتاب مکمل کر لیتے ہیں۔ لیکن تارڈ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ ان کے سارے سفرنامے سلیس اردو زبان میں ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو پڑھنے سے ہندوستان، وہاں کے مقامی کلچر، لوگوں کی عادات، رویوں اور سیرگاہوں وغیرہ کے بارے میں میری معلومات میں تو کافی اضافہ ہوا ہے مگر سچی بات ہے کہ ان انگریزی زبان میں لکھی کتب پر اردو میں تبصرہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تجربہ رہا۔
ایک کتاب کا اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا نام ’’چشم نم‘‘ ہے جس کا انگریزی ٹائیٹل ’’موئسٹ آئیڈ‘‘ Moist-Eyed ہے۔ حالانکہ چشم نم کا انگریزی ترجمہ ’’برننگ آئیز‘‘ Burning-Eyes بھی کیا جا سکتا تھا۔ اردو زبان کے عظیم انشاپرداز مولانا محمد حسین آزاد آنسوں کو ’’آب حیات‘‘ کہا کرتے تھے اور پھر اسی کو عنوان بنا کر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب(آب حیات) مولانا محمد حسین آزاد کی وہ تصنیف ہے جسے کلاسیکی شاعروں کا جدید تذکرہ شمار کیا جاتا ہے۔ چشم نم کی مصنفہ پروفیسر نوشابہ صدیقی ہیں اور اس کے مترجمین نثار اختر اور اشعر نور ہیں۔ موصوف مصنفہ ابھی نوعمر تھیں جب قیام پاکستان کے وقت الگ اور آزاد وطن کی محبت میں(اور یتیمی کی حالت میں) وہ زندگی کا سب کچھ بھارت چھوڑ کر پاکستان آ گئیں جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس، ماس کمیونیکیشن اور اردو میں تین ماسٹر ڈگریز حاصل کرنے سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئیں۔ وہ ایک کالج کی پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کراچی میں بطور پروفیسر اور پرنسپل پوری تین نسلوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔ وہ متعدد دیگر کتابوں کی مصنف ہیں، بہت سے ایوارڈز حاصل کیئے اور پاکستان ریڈیو و قومی ٹیلی ویژن پر سینکڑوں پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ موصوفہ مرنجان مرجان شخصیت ہیں اور استادوں کی استاد ہیں۔ ایک استاد جب طلبا کو لیکچر دیتا ہے تو خود اس کا علم اور یادداشت بھی بڑھتی ہے۔ دراصل تعلیم و تربیت ایک ایسا تخلیقی عمل ہے کہ انسان کا علم جوں جوں بڑھتا ہے اس کی علمی تشنگی میں بھی توں توں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان میں جتنی بھی علمی و ادبی وسعت آ جائے وہ احساس تشکر کی وجہ سے اپنی مٹی یعنی ’’جنم بھومی‘‘ کو کبھی نہیں بھولتا ہے۔ نوشابہ صدیقی کو واپس بھارت جا کر اپنی آبائی پیدائش کو دیکھنے کے لیئے چھ دہائیوں یعنی 60سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد 2014 ء میں وہ دن آیا جب نوشابہ صاحبہ کو دو ہفتوں کے لیئے انڈیا جانے کا موقعہ ملا۔ یہ لمحہ کتنا عجیب و غریب اور کیسی جذباتی کیفیات سے بھرپور ہو گا جب انہوں نے پاکستان و بھارت کی تقسیم اور ہجرت کے 60برس بعد دوبارہ ان بازاروں، گلیوں اور مکانوں کو دیکھا ہو گا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بالخصوص ان کے بیٹے اشعر نور نے کیا ہے جس میں وہ کتاب کے تعارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے کہ،یہ ایک یتیم لڑکی کے سفر کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے آبا و اجداد کی یادیں کریدنے کے لئے چھ دہائیوں تک انتظار کیا تاکہ تقسیم کے دوران جو نقصان ہوا، جو قربانیاں دی گئیں اور اس دوران جو درد محسوس کیا گیا اسے یاد رکھا جا سکے۔
(جار ی ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
فیصل آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی 17 سال بعد واپسی، شاہین اور پروٹیز کے درمیان پہلا ون ڈے آج ہو گا
کراچی:ویرانی بنی بھولی بسری یاد فیصل آباد کا میدان پھر آباد ہوگیا،17 سال بعد وینیو پر انٹرنیشنل میچ کی تیاریاں مکمل ہو گئیں، پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ون ڈے سیریز کا پہلا مقابلہ آج ہوگا۔
گرین شرٹس فتح کی راہ پر گامزن رہنے کیلیے پراعتماد ہیں، شاہین شاہ آفریدی نے نئی طرز میں کپتانی کے کامیاب آغاز کیلیے کمر کس لی ہے۔
بیٹنگ لائن کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹاپ آرڈر پر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوگی، بولنگ اٹیک بھی حریف سائیڈ کے جلد قدم اکھاڑنے کی کوشش کرے گا۔
گزشتہ روز دونوں ٹیموں نے ٹریننگ سیشن میں تیاریوں کو حتمی شکل دے دی، ٹرافی کی رونمائی بھی کردی گئی، شاہین اور جنوبی افریقی ہم منصب میتھیو بریٹزکی دونوں ہی اسے اپنا بنانے کیلیے بے چین ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 3 ون ڈے میچز کی سیریز کا آغاز منگل کو فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں ہو رہا ہے، اس سے قبل 2 ٹیسٹ کی سیریز 1-1 سے برابر رہی جبکہ ٹی 20 میں گرین شرٹس نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی تھی۔
پلیئرز اب ون ڈے سیریز میں بھی حریف کو قابو کرنے کیلیے پراعتماد ہیں، شاہین شاہ آفریدی ون ڈے کپتانی کی شروعات کریں گے، انھیں محمد رضوان کی جگہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پاکستان نے اس سیریز کیلیے مضبوط اسکواڈ کا انتخاب کیا ہے، فخر زمان کی واپسی ہو گئی جو ٹی 20 سیریز میں شریک نہیں ہوسکے تھے، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ ون ڈے کرکٹ میں نویں مرتبہ ایک ساتھ بولنگ کریں گے۔
یہ تینوں بولرز پہلی بار ایشیا کپ 2023 میں ساتھ میدان میں اترے تھے، گزشتہ برس ان تینوں نے آسٹریلیا میں پاکستان کو ون ڈے سیریز جتوانے کے ساتھ جنوبی افریقہ کو اس کے ملک میں وائٹ واش کیا تھا۔
دونوں حریفوں کے خلاف مجموعی طور پر 5 میچز میں انھوں نے گرنے والی 47 وکٹوں میں سے 31 اڑائی تھیں۔
ایک روزہ سیریز میں کامیابی کیلیے بیٹنگ لائن کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹاپ آرڈر پر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی ذمہ داری عائد ہوگی، بولنگ اٹیک بھی حریف سائیڈ کے قدم جلد اکھاڑنے کی کوشش کرے گا۔
دوسری جانب جنوبی افریقی ٹیم ایک روزہ فارمیٹ میں کافی فارم میں ہے، اس نے آسٹریلیا اور انگلینڈ میں سیریز فتوحات حاصل کی ہیں جبکہ چیمپئنز ٹرافی کا بھی سیمی فائنل کھیلا۔
پروٹیز نے سال کے آغاز میں پاکستان میں ٹرائنگولر سیریز بھی کھیلی تھی، اس لیے وہ اس بار بھی اچھی پرفارمنس کیلیے پراعتماد ہے، تینوں میچز فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے جہاں پر 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہورہی ہے۔
اس گراؤنڈ پر آخری مرتبہ انٹرنیشنل میچ 11 اپریل 2008 کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا گیا تھا، مجموعی طور پر اس وینیو پر 16 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے جا چکے ہیں۔
پاکستان نے اقبال اسٹیڈیم میں 12 ون ڈے کھیلے جن میں سے 9 جیتے اور 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جنوبی افریقہ نے 5 میں سے 2 ون ڈے جیتے جبکہ 3 میں شکست ہوئی۔
گزشتہ روز پاکستان ٹیم نے اقبال اسٹیڈیم میں بھرپور ٹریننگ کی، کھلاڑیوں نے پہلے وارم اپ سیشن میں شرکت کی،پھر کوچز کی نگرانی میں بیٹنگ اور بولنگ پر توجہ دی۔
بیٹرز نیٹ میں شاٹس کو بہتر بناتے رہے ، بولرز کی توجہ لائن اینڈ لینتھ پر مرکوز رہی، ٹرافی کی رونمائی بھی کردی گئی۔
اس تاریخی موقع پر کپتان شاہین آفریدی اور جنوبی افریقی ہم منصب میتھیو بریٹزکی نے پوز دیے، دونوں ہی کپتان ٹرافی کو جیتنے کیلیے بے چین ہیں ۔