یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلحہ کے ذخائر کے مقابلے میں ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر میں امریکہ امریکہ کی امریکہ کے امریکہ کو رہے ہیں یمن کے رہی ہے چکی ہے یمن کی
پڑھیں:
میانمار کے فوجی جنرل کی خوشامد کارگر، امریکا نے پابندیاں نرم کردیں
امریکا نے جمعرات کے روز میانمار کے حکمران جرنیلوں کے متعدد قریبی اتحادیوں پر عائد پابندیاں ختم کر دیں، یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب 2 ہفتے قبل میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی تھی اور ایک خط میں تجارتی محصولات میں نرمی اور پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس فیصلے کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام امریکا کی میانمار کی فوجی حکومت کے حوالے سے پالیسی میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، وہی فوجی حکومت جس نے 2021 میں ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی میں ملوث رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے عالمی قوانین کو پس پشت ڈال دیا، میانمار پر ڈرونز سے حملہ
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں بتایا گیا کہ کے ٹی سروسز اینڈ لاجسٹکس اور اس کے بانی جوناتھن میو کیاو تھونگ، ایم سی ایم گروپ اور اس کے مالک آنگ ہلائنگ او، سنٹیک ٹیکنالوجیز اور اس کے مالک سِت تائنگ آنگ، اور ایک اور شخصیت ٹن لاٹ مِن کو امریکی پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
کے ٹی سروسز اور جوناتھن میو کیاو تھونگ کو جنوری 2022 میں صدر بائیڈن کی حکومت کے تحت پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جو کہ میانمار میں فوجی قبضے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ایک علامتی اقدام تھا۔ سِت تائنگ آنگ اور آنگ ہلائنگ او کو اسی سال میانمار کے دفاعی شعبے میں سرگرمیوں کی بنیاد پر پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ ٹن لاٹ مِن کو 2024 میں، فوجی بغاوت کی تیسری سالگرہ کے موقع پر، فہرست میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ وہ بھی فوجی حکام کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں پر میانمار فوج کا ڈرون حملہ، 200 سے زائد جاں بحق
محکمہ خزانہ نے پابندیاں ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
11 جولائی کو میانمار کے فوجی حکمران جنرل مِن آنگ ہلائنگ نے ایک خط میں صدر ٹرمپ سے درخواست کی تھی کہ امریکا میانمار کی برآمدات پر عائد 40 فیصد ٹیرف کو کم کرے، اور یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ مذاکرات کے لیے ایک وفد واشنگٹن بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
ریاستی میڈیا کے مطابق، سینیئر جنرل نے ملک کو قومی خوشحالی کی طرف لے جانے میں صدر ٹرمپ کی محب وطن قیادت کو سراہا۔
مزید پڑھیں: میانمار میں 500 سے زیادہ پاکستانیوں کو جبری طور پر قید میں رکھنے کا انکشاف
صدر ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے خط کے جواب میں، جس میں یکم اگست سے ٹیرف کے نفاذ کی اطلاع دی گئی تھی، مِن آنگ ہلائنگ نے ٹیرف کو 10 سے 20 فیصد تک کم کرنے کی تجویز دی، جب کہ میانمار کی طرف سے امریکی درآمدات پر محصول کو صفر سے 10 فیصد تک کرنے کی پیشکش کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی، مِن آنگ ہلائنگ نے صدر ٹرمپ سے یہ بھی درخواست کی کہ میانمار پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے پر غور کریں، کیونکہ یہ دونوں ممالک اور ان کے عوام کے باہمی مفادات اور خوشحالی میں رکاوٹ ہیں۔
مزید پڑھیں: میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو معافی مل گئی
واضح رہے کہ میانمار دنیا میں نایاب زمینوں سے حاصل ہونے والے معدنیات کا ایک اہم ذریعہ ہے، جنہیں جدید دفاعی اور صارف ٹیکنالوجی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان معدنیات کی دستیابی امریکی حکمتِ عملی میں ایک مرکزی عنصر ہے، خاص طور پر چین کے ساتھ جاری مسابقت کے تناظر میں، جو کہ دنیا کے 90 فیصد ریئر ارتھ پروسیسنگ کا مرکز ہے۔
میانمار کی زیادہ تر کانیں کاچن آزادی فوج کے زیر اثر علاقوں میں واقع ہیں، جو فوجی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ایک نسلی گروہ ہے اور ان معدنیات کی پراسیسنگ چین میں کی جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے ڈائریکٹر جان سفٹن نے امریکی اقدام کو ’چونکا دینے والا‘ قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ کو غیر واضح کہا ہے۔
مزید پڑھیں:
’یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے، جو اب تک میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف سخت اقدامات پر مبنی رہی تھی، وہی حکومت جس نے صرف 4 سال قبل ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی مرتکب ہے۔‘
جان سفٹن نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ میانمار کی فوج کے متاثرین اور ان تمام افراد کے لیے شدید تشویش کا باعث بنے گا جو جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ایشیا تجارتی محصولات ٹیرف ڈونلڈ ٹرمپ معدنیات میانمار ہیومن رائٹس واچ