Islam Times:
2025-09-17@23:46:15 GMT

یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت

اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
 
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
 
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
 
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
 
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
 
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
 
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلحہ کے ذخائر کے مقابلے میں ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر میں امریکہ امریکہ کی امریکہ کے امریکہ کو رہے ہیں یمن کے رہی ہے چکی ہے یمن کی

پڑھیں:

قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اور اللہ کی آخری کتاب کی وہ روشن آیت۔ تاریخ، زندگی، روح، فطرت اور فکر ہر زاویے سے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ: اے ایمان والو یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بنائو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ ان ہی میں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (المائدہ: 51) امت مسلمہ کے باطل عناصر کی شناخت کے لیے یہ آیت آج بھی معانی فراہم کرتی ہے۔ وہ معانی جو تاریخ کے کسی بھی دور میں نئے اور نا معلوم نہیں رہے۔ وہ لوگ جن کے قول اور عمل میں یہود ونصاریٰ کی دوستی رچی بسی ہے، جو اس آیت میں بتائے گئے طے شدہ راستے کے برعکس عمل کرتے ہیں، جو خود بھی ظالموں کے زمرے میں ہیں، ان سے اظہار یکجہتی؟ ان کی حمایت؟ وہ وسیع گزرگاہ حیات قرآن جس کے حقائق سے ہمیں آگاہ کرتا ہے، جس فہم کو ہمارے اندر بیدار کرتا ہے اس کے مطابق قطر پر اسرائیل اور امریکا کا حملہ۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ قطر بظاہر اہل فلسطین کے دوست کا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن وہ ان کے سب سے بڑے دشمن، ان کی بربادی کے سب سے بڑے منصوبہ سازاور ان کی نسل کشی اور قتل کے سب سے بڑے مجرم امریکاکا سب سے بڑا دوست بھی ہے۔ اس کی دوستی پر اپنی قسمت کا سب سے بڑا شکر گزار۔ جب کہ:

٭ اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں کو سب سے زیادہ ویٹو کرنے والا: امریکا۔ ہر عالمی فورم پر اسرائیل کی پشت پناہی نہیں بلکہ خود اسرائیل بن جانے والا: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت جس کی امداد پرکھڑی ہے: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کو عربوں کو قتل کرنے والی سب سے بڑی مشین میں تبدیل کرنے والا: امریکا۔

٭ اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار، آئرن ڈوم، میزائل ڈیفنس سسٹم اور جدید ترین جیٹ طیارے فراہم کرنے والا: امریکا۔ یہودیوں کے خطے میں قابض ہونے کے بعد عربوں کے ساتھ ہر جنگ میں اسرائیل کو فتح سے ہمکنار اور عربوں کو شکست دینے والا اصل کردار: امریکا۔ غزہ کو غیر مسلح اور فلسطینیوں کی مزاحمتی طاقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنے والا: امریکا۔ اسرائیل کے امن کو یقینی بنانے اور غزہ کو ’’اقتصادی زون‘‘ یا ’’ساحلی تفریح گاہ‘‘ میں بدلنے کے لیے تمام اہل غزہ کو قتل یا دربدر کرنے کا پروگرام رکھنے اور اس کو عملی شکل دینے میں اسرائیل کی غزہ پر زیادہ سے زیادہ بمباری کے لیے مدد اور حوصلہ افزائی کرنے والا: امریکا۔

٭ اہل فلسطین کو یہودی وجود کا غلام بنانے اور غزہ پر ہونے والی بمباریوں اور محاصروں میں اسرائیل کو سیاسی اور فوجی کور دینے والا: امریکا۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی اور مالی امداد دینے والا ملک: امریکا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 سے 2022 تک اسرائیل کو امریکا نے تقریباً 317.9 بلین ڈالر کی مدد فراہم کی جس میں سے بیش تر امداد فوجی تھی۔ اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک جنگ غزہ کی شروعات سے کے بعد امریکا نے اسرائیل کو 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی ہے۔

٭ اسرائیل کو ملنے والی امریکی امداد میں اقتصادی یا ترقیاتی امداد بہت کم ہے۔ تقریباً تمام رقم فوجی نوعیت کی ہے جس کا مقصد اسرائیل کے فوجی نظام، اسلحہ کنٹرول اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنا اور برقرار رکھنا ہے۔ تاکہ اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلم اور عرب ممالک پر حملے کرسکے اور انہیں برباد کرسکے۔

٭ سی آئی اے اور موساد کا قریبی تعلق، معلومات اور آپریشنز کا تعلق، سائبر سیکورٹی، سیٹلائٹ سر ویلنس، ڈرون ٹیکنالوجی میں معاون: امریکا۔ اسرائیل کو جدید ترین سیکورٹی سوفٹ ویئر اور نگرانی کے آلات مہیا کرنے والا: امریکا۔

٭ امریکی میڈیا میں جس ملک کا بیانیہ سب سے زیادہ غالب اور عوامی رائے اور پالیسی پر اثرانداز: اسرائیل۔ امریکی تھنک ٹینکس، یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور خصوصی پروجیکٹس میں جس ملک کا امیج سب سے زیادہ پاور فل اور مثبت: اسرائیل۔

مسلم اور عرب دشمنی اور لا کھوں فلسطینیوں کے قتل اور ان کی بربادی میں امریکا اور اسرائیل کی یہ وہ یکجائی ہے جو پہلے دن سے مسلسل اور مستقل ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کے جوش وخروش میں جو باہم مدغم ہیں۔ جن کی جنگوں اور تاریخی ڈھانچے میں، ماضی، حال اور مستقبل کے ادراک میں جو کچھ قابل فنا ہے وہ سوائے مسلمانوں کے کچھ نہیں۔ اس کے باوجود قطر امریکا کے ساتھ کس طرح شیرو شکر ہے، کس طرح امریکا کا ممد ومعاون ہے، کس طرح سیاسی معاہدوں میں شریک اور سیکورٹی پارٹنر ہے اور کس طرح امریکا کی طاقت کی برقراری اور اس میں اضافے کے لیے کوشاں ہے، ملا حظہ ہو:

قطر میں العدید ائر بیس (Al Udeid Air Base) واقع ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکا کا کمانڈ اور آپریشنل مرکز ہے۔ اس میں تقریباً 11 سے 13 ہزار امریکی فوجی تعینات رہتے ہیں جن کی تعداد 20 ہزار تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہاں برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی بھی محدود تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ F15 اور F16 اور F22Raptor لڑاکا طیارے باقاعدہ اس اڈے پر تعینات رہتے ہیں۔ جاسوسی اور کمانڈ کنٹرول طیارے اور انٹیلی جنس اور ہدفی حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونزبھی اسی بیس سے اڑان بھرتے ہیں۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن، انٹیلی جنس گیدرنگ، ڈرون کنٹرول اور ریجنل ریڈار سسٹمز سب اسی اڈے کے ذریعے مربوط ہوتے ہیں۔ یہیں سے لڑاکا طیاروں کو ہوا میں ایندھن بھرنے والے جہاز کے ذریعے ری فیول کیا جاتا ہے۔ میزائل ڈیفنس اور کروز میزائل لانچنگ سسٹمز بھی یہاں موجود ہیں۔ اسی اڈے سے امریکا پورے خلیج، ایران، افغانستان، عراق، شام اور یہاں تک کہ مشرقی افریقا کو آپریشنز کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے پچھلے دنوں دورے کے دوران قطر نے امریکی کمپنیوں کے جو معاہدے کیے ان کی مقدار 243.5 بلین ڈالر ہے اور جو مزید معاہدے طے پائے ان کی مجموعی اقتصادی تبادلے کی قیمت 1.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ قطر ائر ویز کے لیے 160 بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا جس کی مالیت 96 بلین ڈالر Raython اور جنرل اٹامکس سے بھی کئی ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئے اس کے علاوہ العدید ائر بیس کی فضائی، دفاعی اور بحری سلامتی کے معاملات میں سرمایہ کاری کی حد 38 بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ قطر کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایک بوئنگ طیارہ بطور تحفہ دیا گیا جس کی مالیت تقریباً 400 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں بھی قطر نے امریکا کے ساتھ بڑی سرمایہ کاری کی ہے خصوصاً ایل این جی ایکسپنشن کے منصوبے اور امریکی توانائی بنیادی ڈھانچے میں شراکت داری۔

قطر خطے میں امریکا کے لیے ثالثی یا فرنٹ ایجنٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 2020 میں طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات ہوں یا حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات اور قیدیوں کا تبادلہ۔ امریکا کے ساتھ بے حدو حساب تعاون، چاپلوسی، خوشامد اور قریبی اتحادی کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے قطر کو یقین تھا کہ امریکی چھتری تلے آنے کے بعد اب وہ اسرائیل اور امریکا کی جارحیت سے محفوظ رہے گا لیکن امریکا اور اسرائیل نے قطر پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ یہود ونصاریٰ کے لیے کتنی ہی قربانیاں دی جائیں وہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے۔ وہ صرف آپس میں دوست ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہی قائم ودائم اور اسی کا حکم مسلسل جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
  • ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ماہرین
  • ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیر ضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیرضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • زیرِ زمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی بچانے کےلئے پنجاب میں ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کیلئے سخت فیصلہ
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  •  سعودی سفیر کا واشنگٹن میں سعودی فوجی مشن کا دورہ
  • عرب جذبے کے انتظار میں