مصطفی عامر قتل کیس: پولیس مقابلے کے مقدمے میں اہم پیش رفت، غیر قانونی اسلحے سے متعلق اہم انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
مصطفی عامر اغوا و قتل کیس سے جڑے پولیس مقابلے کے مقدمے میں پیش رفت سامنے آگئی جبکہ مقابلے میں استعمال ہونے والا اسلحہ پیچنے والے ملزم کو عبوری چالان مفرور قرار دیدیا گیا۔
اے وی سی سی میں درج پولیس مقابلے میں استعمال ہونے والے غیر قانونی اسلحے سے متعلق اہم انکشافات سامنے آگئے۔
کامران قریشی سے عدالتی حکم پر جیل میں تفتیش کی گئی، تفتیشی افسر انسپکٹر محمد علی نے ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کی اور کہا کہ مصطفی عامر اغوا و قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد ملزم کامران قریشی سے تفتیش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کی جانیوالی تفتیش کے دوران ملزم نے بتایا کہ پشاور میں فرحت اللہ سے اسلحہ خریدا، تفتیشی افسر نے کہا کہ فرحت اللہ کیخلاف غیر قانونی اسلحہ کے مقدمے میں 512 کی کارروائی کی ہے، عبوری چالان میں فرحت اللہ کو مفرور قرار دیا ہے۔
انسپکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں، تاکہ ملزم کی گرفتاری یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے کیس پراپرٹی اور فارنزک رپورٹ کے لیئے پنجاب بھی جاؤنگا۔ روان ہفتے میں ملزم ارمغان عرف آرمی شریک ملزم شیراز اور کامران قریشی کیخلاف عبوری چالان خصوصی عدالت میں پیش کردیں گے۔
انہوں نے بتایا کیس بلکل واضح ہے وائرل ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم ارمغان نے کس طرح پولیس پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کے نتیجے میں اے وی سی سی افسر و اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
انسپکٹر محمد علی نے کہا کہ بلوچستان حب میں مصطفی عامر قتل کیس کا ایک مقدمہ درک ہے جو قانونی تقاضوں کو پورا کرنے بعد کراچی منتقل کردیا جائیگا۔
عبوری چالان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر تفتیشی افسرر نے بتایا کہ اسکروٹنی کے لیئے عبوری چالان محکمہ پراسیکیوشن میں جمع کرائے تھے کچھ اعتراضات لگائے گئے ہیں جنہیں دور کرکے دوبارہ جمع کرائینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ ہفتے کو مقدمات کے عبوری چالان عدالت میں جمع کرادیئے جائیں۔ ملزمان ارمغان، شیراز اور کامران قریشی کے مقدمات کی تفتیش اور ٹرائل سے متعلق جواب دیتے ہوئے تفتیشی افسر نے نتایا کہ ہمارے پاس قتل پولیس مقابلے سمیت دیگر درج مقدمات میں ٹھوس شواہد موجود ہیں، اغوا و قتل میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوائیں گے۔
دوسری جانب کراچی سینٹرل جیل جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ شہزاد خواجہ کی عدالت کے روبرو ملزم کامران قریشی کیخلاف غیر قانونی اسلحہ اور منشیات برآمدگی کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
جیل حکام کی جانب ملزم کامران قریشی کو عدالت پیش نا کیا جاسکا۔ تفتیشی افسر بھی عدالت پیش نا ہوئے، تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی چالان جمع کرانا تھا۔
عدالت نے سماعت 25 اپریل تک ملتوی کردی، سماعت کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں وکیل صفائی خرم عباس اعوان نے کہا کہ آج میرے موکل کو پیش نہیں کیا گیا، وجوہات معلوم نہیں، منتظم عدالت میں مصطفی عامر قتل کیس سمیت دیگر مقدمات میں ملزم ارمغان کے طبی معائنوں سمیت دیگر کارروائیوں کی دستاویزات کی سرٹیفائیڈ کاپیوں کے لییے درخواست دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں کہ وہ منظور کی جاتی ہے یا نہیم۔ ملزم کی طبیعت سے متعلق سوال پر وکیل صفائی نے کہا کہ میری کامران قریشی سے جیل میں ملاقات ہوئی تھی ان طبیعت ناسازتھی آنکھوں کا انفیکش ہوا ہے۔
وکیل صفائی خرم عباس اعوان نے کہا میرے موکل کیخلاف ایف آئی اے نے ایک اور مقدمہ درج کیا ہے۔ ابھی ایک مقدمے میں ملزم ریمانڈ پر ہے، آئندہ سماعت پر دیکھیں گے کہ عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے کیا رپورٹ جمع کرائی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پولیس مقابلے کامران قریشی عبوری چالان تفتیشی افسر مصطفی عامر عدالت میں نے کہا کہ کے مقدمے قتل کیس
پڑھیں:
کچلاک: استاد کا طالب علم کو تھپڑ مارنا جان لیوا بن گیا، پرنسپل خنجر کے وار سے قتل
بلوچستان(نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع کچلاک میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں طالب علم کو تھپڑ مارنے پر غصے میں آئے ماموں نے اسکول کے پرنسپل کو خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر کے آلہ قتل برآمد کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق واقعہ کچلاک کے علاقے کلی لنڈی میں پیش آیا، جہاں احمد علی شاہ کا دس سالہ بیٹا ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ دو روز قبل اسکول کے پرنسپل سکندر شمیم نے بچے کو مبینہ طور پر تھپڑ مارے تھے جس کے باعث بچہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر بچے کے ماموں عطاللہ عرف شمس اللہ کو غصہ آیا۔ وہ اسکول کے باہر پرنسپل کا انتظار کرتا رہا۔ جیسے ہی پرنسپل اسکول کے گیٹ کے قریب پہنچا، عطاللہ نے خنجر سے اس پر حملہ کر دیا۔ حملے کے دوران ملزم بار بار دہراتا رہا کہ میرے بھانجے کو کیوں مارا؟
حملے کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس فوری طور پر پہنچی اور شدید زخمی پرنسپل کو اسپتال منتقل کیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مقتول پرنسپل کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ کئی سالوں سے کچلاک کے مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
مزید انکشاف ہوا ہے کہ 2 جولائی کو مفتی محمود میموریل اسپتال کی جانب سے پولیس، سوشل ویلفیئر اور ایک این جی او کو خط بھیجا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پرنسپل نے بچے پر تشدد کیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
تاہم طالب علم کے والد احمد علی شاہ نے مبینہ طور پر 10 ہزار روپے کے عوض پرنسپل سے صلح کر لی تھی۔
پولیس کے مطابق ایس ایچ او کچلاک نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم عطااللہ کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر کے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا ہے مزید تفتیش جاری ہے۔
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات نمایاں، مشال یوسفزئی کا علیمہ خان کے بیٹے پر طنز