اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) دہلی ہائی کورٹ نے منگل کے روز آیوروید دوائیں تیار کرنے والی کمپنی پتانجلی کے بانی بابا رام دیو کو بھارت کی یونانی دواساز کمپنی ہمدرد اور اس کے مقبول مشروب 'روح افزا' کو نشانہ بنانے کے لیے 'فرقہ وارانہ' اور 'غیر مہذب' قسم کے الفاظ استعمال کرنے پر پھٹکار لگائی۔

بابا رام دیو نے تین اپریل کے روز پتناجلی کے ایک شربت کی تشہیر کرتے ہوئے شربت 'روح افزا' اور ہمدرد کمپنی کے خلاف بعض متنازعہ اور نازیبا باتیں کہی تھیں اور اسی کے خلاف ہمدرد نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

شربت 'روح افزا' کے مماثل نام کی اجازت نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

عدالت نے رام دیو کو اشتہارات واپس لینے کا حکم دیا

ابھی اس مقدمے کی صرف ابتدائی سماعت ہوئی ہے اور عدالت نے اپنا کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے، تاہم ہمدرد کمپنی کے وکیل نے بابا رام دیو پر سخت الزامات عائد کیے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمدرد کی طرف سے دائر مقدمے کی ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس امیت بنسل نے بابا رام دیو کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا، "اس سے عدالت کے ضمیر کو صدمہ پہنچا ہے۔

یہ تو ناقابلِ دفاع بات ہے۔"

دہلی ہائی کورٹ نے رام دیو کو "ہمدرد کے شربت" کے خلاف اپنے تمام اشتہارات کو ہٹانے کا حکم دیا، جس پر رام دیو کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ کو یقین دلایا کہ وہ اپنے مبینہ "شربت جہاد" سے متعلق ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹس کو فوری طور پر حذف کر دیں گے۔

ایمازون بھارت میں پاکستانی 'روح افزا' کی فروخت بند کرے،عدالت

عدالت نے بابا رام دیو کے وکیل راجیو نیر کے بیان کو ریکارڈ پر لیا اور رام دیو سے کہا کہ وہ پانچ دنوں کے اندر ایک ایسا حلف نامہ داخل کریں جس میں وہ حلف لیں کہ وہ "مستقبل میں حریفوں کی مصنوعات کے بارے میں ایسے کوئی بیانات، اشتہارات یا سوشل میڈیا پوسٹ جاری کرنے سے گریز'' کریں گے۔

عدالت نے اس پر مزید سماعت کے لیے یکم مئی کی تاریخ طے کی ہے۔

بابا رام دیو نے 'روح افزا' کے حوالے سے کیا کہا تھا؟

رام دیو نے 'روح افزا' اور ہمدرد سے متعلق جو کچھ بھی کہا اس کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہیں۔ وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمدرد کمپنی 'روح افزا' کا شربت فروخت کر کے اس کا پیسہ مساجد اور مدارس کی تعمیر کے لیے استعمال کرتی ہے۔

انہوں نے 'شربت جہاد' کی اصطلاح بھی استعمال کی اور کہا، "جس طرح لو جہاد ہے، یہ بھی شربت جہاد کی ایک قسم ہے۔ اپنے آپ کو اس شربت جہاد سے بچانے کے لیے، اس پیغام کو ہر ایک تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔"

بابا رام دیو نے مزید کہا، "ایک کمپنی ہے جو آپ کو شربت دیتی ہے، لیکن جو پیسہ کماتی ہے وہ مدرسوں اور مساجد کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔

"

ایلوپیتھی بمقابلہ آیوروید، بھارتی ڈاکٹروں کی طرف سے یوم سیاہ

اگرچہ انہوں نے ہمدرد یا روح افزا کا کھل کر نام نہیں لیا، تاہم کہا، "اگر آپ وہ شربت پیتے ہیں تو مدرسے اور مسجدیں تعمیر ہوں گی۔ لیکن اگر آپ یہ (پتانجلی کا شربت) پیتے ہیں تو گروکل بنیں گے ۔۔۔ پتانجلی یونیورسٹی پھیلے گی، اور بھارتی تعلیم بورڈ کو وسعت ملے گی۔

"

انہوں نے شربت کے دیگر برانڈز کو بھی "ٹوائلٹ کلینرز" سے موازنہ کرتے ہوئے کہا، "اپنے خاندان اور معصوم بچوں کو ٹوائلٹ کلینر کے زہر سے بچائیں جو سافٹ ڈرنکس اور شربت جہاد کے طور پر فروخت ہو رہی ہیں۔ صرف پتانجلی شربت اور جوس کا انتخاب کریں۔"

کورونا کی دوا کا دعوی کرکے پھنس گئے بابا رام دیو

عدالت کو کیا بتایا گیا؟

سینیئر وکیل مکل روہتگی ہمدرد کی طرف سے منگل کے روز دہلی ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے کہا، "یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو حیران کن ہے، جو توہین سے بھی بالاتر ہے۔

یہ فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کا معاملہ ہے، جو نفرت انگیز تقریر کے مترادف ہے۔ اسے ہتک عزت کے قانون سے تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا۔"

مکل روہتگی نے عدالت سے کہا کہ "ایسے بیانات کو ایک لمحے کے لیے بھی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہمیں اس ملک میں پہلے ہی سے کافی مسائل ہیں۔"

بھوک ہڑتالی یوگا گرو: ہسپتال میں حالت مستحکم

ادھر اطلاعات ہیں کہ کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما دگ وجے سنگھ نے گزشتہ ہفتے بھوپال میں رام دیو کے خلاف مبینہ طور پر مذہبی منافرت کو فروغ دینے کے الزام میں پولیس میں شکایت درج کی ہے۔

بھارتی دفعہ 196 کے تحت مذہب، نسل، زبان یا علاقے کی بنیاد پر گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا ممنوع ہے، جب کہ دفعہ 299 دانستہ اور بدنیتی پر مبنی ایسی کارروائیوں کو روکتی ہے جس کا مقصد شہریوں کے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہو۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دہلی ہائی کورٹ بابا رام دیو رام دیو کے رام دیو نے رام دیو کو شربت جہاد عدالت نے انہوں نے روح افزا کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟

اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا

بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔

تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔

پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔

جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔

داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔

مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔

شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔

داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔

داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔

اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔

یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔

اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
  • امریکی عدالت نے حکومتی محکمے کو ذاتی معلومات تک رسائی دیدی
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • ایلون مسک کو ٹرمپ کے خلاف ٹوئٹ کرنا مہنگا پڑ گیا
  • ٹرمپ نے نیتن یاہو کے خلاف فیصلہ دینے والی 4 خواتین ججز پر پابندیاں عائد کر دیں
  • بھارت میں سکھوں کے خلاف ماورائے عدالت قتل کی تاریخ