عمان کے سلطان اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، ایرانی جوہری مذاکرات پر تبادلہ خیال
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
صحافیوں سے اپنی ایک گفتگو میں روس کے صدارتی مشیر کا کہنا تھا کہ ہمارا اپنے ایرانی ساتھیوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جہاں تک ہو سکا ہم اُن کی مدد کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ عمان کے سلطان "هيثم بن طارق" اس وقت "ماسکو" میں موجود ہیں جہاں انہوں نے روسی صدر "ولادیمیر پیوٹن" سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ایران کے جوہری مذاکرات سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس گفتگو کے حوالے سے روس کے صدارتی مشیر "یوری اوشاکوف" نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے ایرانی و امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکراتی عمل کے بارے میں بات کی۔ ہم دیکھیں گے کہ اس عمل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہمارا اپنے ایرانی ساتھیوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جہاں تک ہو سکا ہم اُن کی مدد کریں گے۔ یوری اوشاکوف نے مزید بتایا کہ ممکن ہے کہ ان مذاکرات میں امریکی ٹیم کی سربراہی کرنے والے "اسٹیو ویٹکاف" اس ہفتے ماسکو کا دورہ کریں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسٹیو ویٹکاف ایک ہی وقت میں ایران کے ساتھ غیر مستقیم مذاکرات میں شریک ہیں جب کہ دوسری جانب روس اور یوکرائن کے درمیان امن مذاکرات کی ذمے داری بھی انہیں کے پاس ہے۔ اس لئے ابھی تک یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ان کے دورہ روس کا کیا مقصد ہے؟۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران نے اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جولائی 2025ء) ایران نے آج دو جولائی بروز بدھ اقوام متحدہ کی جوہری نگرانی کی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ باضابطہ طور پر تعاون معطل کر دیا۔ تہران حکومت نے یہ اقدام اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اٹھایا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ جنگ 13 جون کو شروع ہو کر 24 جون کو جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی۔ جنگ کے فوراً بعد 25 جون کو ایرانی پارلیمان نے بھاری اکثریت سے اس بل کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس کے تحت عالمی جوہری ایجنسی سے تعاون معطل کیا جانا تھا۔
بدھ کو ایرانی سرکاری میڈیا نے بتایا کہ بل تمام آئینی مراحل طے کرنے کے بعد نافذ العمل ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
بل کے متن کے مطابق اس قانون کا مقصد ''اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت بنیادی حقوق، خصوصاً یورینیم افزودگی کے حق، کا مکمل دفاع‘‘ کرنا ہے۔یورینیم افزودگی ہی وہ بنیادی نکتہ رہا ہے، جس پر امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔
جنگ کے بعد یہ اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے۔اگرچہ قانون میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کی معطلی کا اطلاق کن مخصوص اقدامات پر ہوگا لیکن یہ واضح ہے کہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو پہلے ایران کی اعلان شدہ تنصیبات تک رسائی حاصل تھی، جو اب متاثر ہو سکتی ہے۔
قانون سازی کے اس عمل میں ایرانی گارڈین کونسل، جو ہر قانون کا حتمی جائزہ لیتی ہے، نے بل کی توثیق کی جس کے بعد صدر مسعود پزشکیان نے اسے نافذ کیا۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق صدر نے ''بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کی معطلی‘‘ کے قانون کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر سخت تنقید کی ہے کہ وہ ایران پر ہونے والے امریکی اور اسرائیلی حملوں پر ''خاموش‘‘ رہی۔ اس ایجنسی کی جانب سے بارہ جون کو ایران کے خلاف منظور کردہ قرارداد میں تہران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا، جو ایرانی مؤقف کے مطابق اسرائیلی حملوں کا ''جواز‘‘ بنی۔
اعلیٰ عدالتی اہلکار علی مظفری نے بدھ کو کہا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی کو ''ایران کے خلاف جرم کی راہ ہموار کرنے‘‘ پر جواب دہ ہونا چاہیے۔ ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق مظفری نے گروسی پر ''دھوکہ دہی اور جھوٹی رپورٹس‘‘ جاری کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ایران نے گروسی کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا تھا، جس میں انہوں نے جنگ کے دوران تباہ ہونے والی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
اس ہفتے کے آغاز میں صدر پزشکیان نے بھی گروسی کے طرزِ عمل کو ''تباہ کن‘‘ قرار دیا۔اگرچہ ایران نے گروسی یا آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو کوئی براہِ راست دھمکی نہیں دی، تاہم فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے آئی اے ای اے کے سربراہ کے خلاف ''غیر واضح خطرات‘‘ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے قدامت پسند اخبار ''کیہان‘‘ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ گروسی اسرائیلی جاسوس ہیں اور انہیں ''سزائے موت‘‘دی جانی چاہیے، جس پر بین الاقوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
شکور رحیم، اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: کشور مصطفیٰ، رابعہ بگٹی