تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے.بھارتی وزیراعظم اورامریکی نائب کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اورامریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے نمائندوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے نئی دہلی کو امید ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس ماہ اعلان کردہ بھاری ٹیرف پر 90 دن کی مہلت کے دوران کچھ رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.
(جاری ہے)
امریکی نائب صدر کا چار روزہ دورہ بھارت فروری میں وزیراعظم مودی نے وائٹ ہاﺅس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ہورہا ہے جس کے دوران بھارت نے امریکہ کے ساتھ اپنا تجارتی سرپلس متوازن کرنے کے لیے مزید امریکی تیل اور گیس خریدنے کا وعدہ کیا تھا.
تاہم اس کے باوجود بھارت کو ٹرمپ کی جانب سے 26 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑا جسے بعد میں 90 دن کی مدت کے لیے کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیایاد رہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس گزشتہ روز دہلی پہنچے تھے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا جس کے بعد انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب دہلی سخت ٹیرف سے بچنے کے لیے امریکہ کے ساتھ جلد تجارتی معاہدے کی کوشش کر رہا ہے. بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی کے دفتر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے نئی دہلی کو امید ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس ماہ اعلان کردہ بھاری ٹیرف پر 90 دن کی مہلت کے دوران کچھ رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا. وینس کے چار روزہ دورے میں قلعے کی شکل کے تاریخی شہر جے پور جائیں گے اور تاج محل دیکھیں گے گزشتہ رات وزیراعظم مودی نے ان کے اعزازمیں اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ دیا تھا بھارتی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق دونوں راہنماﺅں نے توانائی، دفاع، سٹریٹجک ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر گفتگو کی تاہم اس ملاقات کی مزید تفصیلات نہیں دی گئیں. جے ڈی وینس کی ملاقاتوں کے بعد امریکی تجارتی نمائندے جیمی سن گریئر نے کہا کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ واشنگٹن اور بھارت کی وزارت تجارت نے باہمی تجارت پر مذاکرات کے لیے روڈ میپ طے کرنے کے حوالے سے شرائط و ضوابط کو حتمی شکل دے دی ہے وینس اور مودی کے درمیان چین پر بھی گفتگو متوقع ہے جسے دونوں حکومتیں مختلف شعبوں میں ایک چیلنج کے طور پر دیکھتی ہیں دونوں ملک’ ’کواڈ“ گروپ کا بھی حصہ ہیں جس میں آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں امریکی نائب صدر کے ساتھ ان کی بھارتی نژاداہلیہ اوشا بھی ہیں.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی نائب صدر تجارتی معاہدے پر مذاکرات کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔